ایک نہیں۔ دو پاکستان

ایک نہیں۔ دو پاکستان
تحریر: رفیع صحرائی
قانون صرف کمزور کے لیے سخت ہو تو وہ قانون نہیں رہتا، تلوار بن جاتا ہے۔
اسلام آباد میں یکم دسمبر 2025ء کو پیش آنے والا المناک حادثہ صرف دو معصوم جانوں کا قتل نہیں تھا بلکہ اس نظامِ عدل کے منہ پر ایک اور تیز تھپڑ تھا جس میں بااثر افراد کے لیے الگ اور عوام کے لیے الگ قانون ہے۔ سوال یہ ہے کہ انصاف کے ترازو کا ایک پلڑا آخر کب تک بااثر افراد کے لیے جھکا رہے گا؟
یکم دسمبر کی شام اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محمد آصف کے سولہ سالہ بیٹے ابوزر نے ایک تیز رفتارSUVچلا کر سکوٹی پر سوار دو خواتین کو ٹکر مار کر ہلاک کر دیا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ پولیس نے بعد میں اسے ایک نجی ہسپتال سے گرفتار کیا، چار روزہ جسمانی ریمانڈ لیا اور اس پر درج ذیل دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
دفعہ 279، ریش ڈرائیونگ
دفعہ 427، نقصان پہنچانے والا فعل
دفعہ 322، نامناسب قتل (manslaughter)
کم عمر ہونے کی وجہ سے اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ لائسنس نہ ہونے پر دفعہ 302 کیوں نہ لگی؟ اگر ایک عام شہری بغیر لائسنس گاڑی چلا کر ہلاکت کا باعث بنتا تو اس پر دفعہ 302( ارادہ نہ رکھتے ہوئے بھی قابلِ سزا قتل) باقاعدہ لگ سکتی تھی۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہوا۔ کیوں؟ کیا قانون جج کے بیٹے کے لیے بدل جاتا ہے؟ محض پانچ دن میں ملزم اس بنیاد پر رہا ہو گیا کہ ایک مقتولہ کی والدہ اور بھائی نے عدالت میں اور دوسری مقتولہ کی والدہ نے سوشل میڈیا پر بیان دے کر اسے معاف کر دیا لیکن یہاں بھی اہم سوالات جنم لیتے ہیں:
1۔ کیا سوشل میڈیا پر دیا جانے والا بیان عدالت میں قابلِ قبول شہادت ہے؟
2۔ عدالت نے یہ تصدیق کیوں نہ کی کہ ویڈیو بیان دینے والی خاتون واقعی مقتولہ کی والدہ ہے؟
3۔ عدالت نے تصدیق کیوں نہ کی کہ کیا یہ بیان دبائو، خوف یا کسی ’ سیٹلمنٹ‘ کا نتیجہ تو نہیں؟
4۔ اگر قتل جیسے بڑے اور اہم مقدمے میں سوشل میڈیا پر دیا گیا بیان قابلِ قبول ہے تو کیا ہر مقدمے میں سوشل میڈیا ویڈیو بیان قابلِ قبول ہو گا؟ ایسی صورت میں عدالتوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
عام پاکستانیوں کو تو یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ اگر 18سال سے کم عمر بچہ موٹر سائیکل چلاتا پکڑا جائے تو والد کے خلاف کارروائی ہوگی تو پھر ایک سولہ سالہ لڑکے کو لگژری SUVتھمانے والے والد کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہ کاٹی گئی؟ اس نے ایک ایسے بچے کے ہاتھ گاڑی تھمائی جو قانونی طور پر گاڑی چلانے کا اہل ہی نہیں تھا۔ کیا یہ انصاف کا بدترین دوہرا معیار نہیں؟
لیکن ٹھہریے! یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ تو نہیں۔ ہمارے ملک میں ’’ بااثر‘‘ افراد کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہمیشہ خاک میں مل ملتے رہے ہیں جبکہ قاتل باعزت گھروں کو لوٹتے رہے ہیں۔
بلوچستان کے ایم پی اے سردار عبدالماجد اچکزئی کا کیس دیکھ لیں جس نے ٹریفک پولیس اہلکار کو دورانِ ڈیوٹی گاڑی تلے کچل دیا۔ اس پولیس اہل کار کے بچے رُل گئے مگر اچکزئی کا سی سی ٹی وی فوٹیج اور سوشل میڈیا کے شور شرابے کے باوجود کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکا۔
کراچی میں ایک بااثر سیاسی خاندان کا نوجوان جس نے کار ریس کے دوران دو افراد کو مار ڈالا تھا وہ چند ماہ میں بری ہو گیا۔
لاہور میں ڈیفنس کے قریب ایک معروف صنعتکار کے بیٹے نے فائرنگ سے دو نوجوانوں کو قتل کیا بعد ازاں ’’ سمجھوتے‘‘ پر آزاد ہو گیا۔
ہر بار ایک نہیں، دو پاکستان کا ثبوت مل گیا۔
ورثاء کی معافی اپنی جگہ مگر ریاست کا بھی تو کوئی فرض ہوتا ہے۔ کیا یہ اس کا فرض نہیں بنتا کہ وہ قانون کے مطابق وی آئی پیز پر مقدمہ چلائے تاکہ ان کا مقابلہ نہ کر سکنے والے مظلوم خاندان کو انصاف مل سکے۔ افسوس۔۔۔۔ یہاں ریاست کمزور اور وی آئی پیز اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔ افسوس یہاں ریاست خاموش ہے۔ وکلاء تنظیمیں خاموش ہیں۔ این جی اوز خاموش ہیں اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار بھی خاموش ہیں۔ کس نے انہیں خاموش کرایا؟ یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب عوام بخوبی جانتے ہیں۔
اگر یہ دونوں مقتولہ خواتین کسی بڑے خاندان سے ہوتیں تو کیا پانچ دن میں قاتل کی رہائی ہو جاتی؟ کیا ریاست تب بھی ایسے ہی خاموش رہتی؟ کیا عدالتیں یوں بنا تصدیق معافی قبول کر لیتیں؟
یہی اصل سوال ہے جو پاکستان کو دو حصوں میں بانٹتا ہے:
ایک پاکستان ۔ بااثر افراد کے لیے
دوسرا پاکستان ۔ عام شہریوں کے لیے
ایک طرف موٹر سائیکل والے پکڑے جا رہے ہیں۔ بسوں، ویگنوں اور بھاری گاڑیوں پر سخت کریک ڈائون کیا جا رہا ہے۔ بھاری جرمانوں سے عوام کی کھال اتاری جا رہی ہے۔ ٹرانسپورٹر تنگ آ کر ہڑتال کر رہے ہیں۔ طلبہ اور معصوم شہریوں کو حوالاتوں میں بند کر کے ذلیل کیا جا رہا ہے۔ مگر دوسری طرف ایک بااثر خاندان کا سولہ سالہ لڑکا اپنی گاڑی سے دو قتل کر کے بھی پانچ دن میں باہر آ جاتا ہے۔
یہ کیسا ملک ہے؟
یہ کیسا قانون ہے؟
دو انسانوں کے قتل پر اتنی جلدی معافی؟ یہ تو کسی پالتو جانور کے کیس میں بھی نہیں ہوتا۔ انسانوں کی جانوں کی قیمت آخر کیا رہ گئی ہے؟
چند بیانات؟
چند دفتری کارروائیاں؟ یا پھر’’ سیٹلمنٹ؟‘‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کیس کا ریکارڈ ازخود منگوائیں۔ ملزم اور اس کے والد دونوں کو کٹہرے میں لائیں اور یہ طے کریں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے یا نہیں؟ اگر جج کا بیٹا قانون سے بالا ہے تو پھر عدالتوں کے بورڈ دیواروں سے اتار دئیے جائیں۔
عوام کی بدقسمتی سے ہر واقعہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہے کہ یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک وہ پاکستان جہاں انصاف، قانون، انسانی حقوق اور اخلاقیات سب لاگو ہوتے ہیں۔
اور دوسرا پاکستان وہ ہے جہاں سب کچھ صرف طاقت، تعلق اور منصب کا غلام ہے۔
’’ قانون صرف کمزور کے لیے سخت ہو تو وہ قانون نہیں رہتا، تلوار بن جاتا ہے‘‘۔




