ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ’’ ڈیجیٹل تشدد‘‘ کے انجن

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ’’ ڈیجیٹل تشدد‘‘ کے انجن
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جمہوریت اور ریاست کے مابین تعلق کی بنیاد ہمیشہ ایک غیر تحریری عمرانی معاہدے پر استوار ہوتی ہے، جہاں مکالمہ، اختلاف رائے اور تنقید ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن جب یہ تنقید دشنام طرازی، بہتان اور منظم کردار کشی کی شکل اختیار کر لے تو پھر ریاست کا ردعمل اور معاشرتی رویے ایک نئے اور خطرناک دوراہے پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔ جرمنی اس وقت ایک غیر معمولی سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، یہ بحران معاشی نہیں بلکہ اخلاقی اور قانونی ہے، جس کا محور جرمن ضابطہ فوجداری کا سیکشن 188ہے۔ جرمنی میں سیاستدانوں کے خلاف ہتک عزت، بہتان اور توہین کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ محض دو سالوں کے اندر جرمن معاشرے میں سیاسی عدم برداشت تین گنا بڑھ چکی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قدر تیزی سے یہ زہر معاشرے کی رگوں میں کیسے اترا؟ اس کے جواب میں ہمیں سوشل میڈیا کے ’’ لینٹیکولر اثر‘‘ کو سمجھنا ہوگا جہاں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اب بحث و مباحثے کے فورمز نہیں رہے بلکہ ’’ ڈیجیٹل تشدد‘‘ کے انجن بن چکے ہیں، جہاں مخالفین کو دلائل سے خاموش کرانے کے بجائے منظم شٹ اسٹارمز کے ذریعے ان کی عوامی ساکھ کو اس حد تک مجروح کیا جاتا ہے کہ وہ عوامی زندگی سے ہی کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کے دریچوں سے جھانکنا ہوگا، خاص طور پر 2019ء کا وہ واقعہ جب کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سیاستدان اور کیسل کے ڈسٹرکٹ پریذیڈنٹ والٹر لبکے کو ان کے گھر کی چھت پر دائیں بازو کے ایک انتہا پسند نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا، لبکے کا قتل کوئی اچانک رونما ہونے والا حادثہ نہیں تھا بلکہ وہ اس سے قبل کئی سالوں تک مسلسل آن لائن نفرت انگیز مہمات کا نشانہ بنتے رہے تھے، اس واقعے نے جرمن ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ آن لائن نفرت اور حقیقی دنیا کے تشدد میں ایک براہ راست اور خونی تعلق موجود ہے، اسی پس منظر میں 2021ء میں ریاستی سطح پر ایک بڑی قانونی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا گیا جسے ’’ دائیں بازو کی انتہا پسندی اور نفرت انگیز جرائم کے خلاف پیکیج‘‘ کا نام دیا گیا، اس قانونی پیکیج کا مرکزی ستون سیکشن 188کی ترمیم تھی، جس نے قانون کے آہنی ہاتھوں کو مزید مضبوط کر دیا، اس قانون کے تحت سیاسی زندگی سے وابستہ افراد کی توہین کو ایک سنگین جرم قرار دیا گیا، خاص طور پر اگر اس فعل کا مقصد متعلقہ سیاستدان کی عوامی سرگرمیوں کو مشکل بنانا یا اسے مفلوج کرنا ہو، قانون سازوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس جرم کی سزا محض جرمانہ نہ ہو بلکہ بہتان تراشی پر تین سال اور بدنیتی پر مبنی ہتک عزت پر پانچ سال تک کی قید ہو سکتی ہے، لیکن اس قانون کا سب سے اہم اور انقلابی پہلو’’ عوامی مفاد‘‘ (Ex Officio)کا نفاذ تھا، جس کے تحت اب پراسیکیوٹرز کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ متاثرہ سیاستدان کی ذاتی شکایت کا انتظار کیے بغیر خود کارروائی کر سکتے ہیں، کیونکہ قانون کی نظر میں اب ایک عوامی نمائندے کو خاموش کرانا صرف اس کی ذات پر حملہ نہیں بلکہ جمہوری ڈھانچے پر حملہ تصور کیا جانے لگا۔
تاہم، تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو ایک شدید قانونی اور سیاسی بحث کو جنم دیتا ہے، کیا یہ قانون واقعی جمہوریت کا محافظ ہے یا پھر یہ حکمران طبقے کے لیے ایک ’’ خصوصی استحقاق‘‘ اور ’’ دوہرا قانونی نظام‘‘ قائم کر رہا ہے؟ اس سوال کو سب سے زیادہ شدت سے ’’ الٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ اور دیگر شہری آزادیوں کے علمبردار اٹھا رہے ہیں، ان ناقدین کا کہنا ہے کہ سیکشن 188کا استعمال دراصل حکومت پر جائز تنقید کو دبانے اور اختلاف رائے کو جرم قرار دینے کے لیے کیا جا رہا ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک عام شہری کی توہین ہو تو اسے سیکشن 185کے تحت ایک نجی معاملہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر وہی الفاظ کسی سیاستدان کے لیے استعمال ہوں تو پوری ریاستی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے، یہ تضاد قانون کی نظر میں برابری کے بنیادی اصول کی نفی کرتا ہے۔
دوسری جانب، وفاقی وزارت انصاف اور سیکیورٹی اداروں کا موقف بھی ٹھوس دلائل پر مبنی ہے، ان کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں، بالخصوص مقامی سطح کے نمائندوں کو جن خطرات کا سامنا ہے وہ عام شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور منفرد نوعیت کے ہیں، یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ نفرت انگیز مہمات کا سب سے زیادہ نشانہ وفاقی وزراء نہیں بلکہ مقامی سیاستدان بن رہے ہیں، وفاقی عہدیداروں کے برعکس، ان مقامی میئرز اور کونسلرز کے پاس نہ تو بلٹ پروف گاڑیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی سیکیورٹی گارڈز کا حصار، وہ اپنے حملہ آوروں کے درمیان ہی رہتے ہیں، اسی محلے میں جہاں ان کے بچے اسکول جاتے ہیں اور جہاں وہ سودا سلف خریدتے ہیں، گرین پارٹی اس نفرت کا خاص ہدف رہی ہے جسے اکثر توانائی اور موسمیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ایک طبقے کی جانب سے محنت کشوں کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف AfDکو اکثر جسمانی حملوں اور املاک کو نقصان پہنچانے جیسی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
سب سے پہلا اور فوری خطرہ ’’ خاموش کرنے کا اثر‘‘ ہے، جو مقامی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے، جب ایک قابل، پڑھے لکھے اور شریف شہری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کونسلر یا میئر بننے کی قیمت اسے اپنی اور اپنے خاندان کی عزت اور سکون کی بربادی کی صورت میں چکانی پڑے گی، تو وہ انتخابی میدان سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، دیہی جرمنی میں یہ رجحان پہلے ہی دیکھا جا رہا ہے جہاں کئی مقامات پر میئرز نے استعفے دے دئیے یا انتخابات لڑنے سے انکار کر دیا، یہ خلا پھر ان عناصر کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے جو بنیاد پرست ہیں اور جو پولرائزیشن کی فضا میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں، دوسرا بڑا خطرہ سیاسی تشدد کا معمول بن جانا ہے، جب آپ اپنے سیاسی مخالف کو ’’ غدار‘‘ ، ’’ کیڑا‘‘ یا ’’ دشمن‘‘ جیسے القابات سے نوازتے ہیں تو دراصل آپ اس کی انسانیت کی تذلیل کر رہے ہوتے ہیں۔
تیسرا اور اہم ترین نکتہ سیاست کی قانونی حیثیت یا ’’ جیوریڈیفیکیشن‘‘ ہے، جب سیاسی لڑائیاں پارلیمنٹ اور عوام کی عدالت کے بجائے کورٹ رومز میں لڑی جانے لگیں تو عدلیہ پر بوجھ بڑھ جاتا ہے اور اس کے سیاسی ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے ماحول کا نام ہے جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے، اگر ہم نے مکالمے کے آداب کھو دئیے تو پھر چاہے کتنے ہی سخت قوانین کیوں نہ بنا لیے جائیں، سماجی ڈھانچے کو ٹوٹنے سے بچانا ناممکن ہو جائے گا۔





