پنجاب میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ۔ لمحہ فکریہ

پنجاب میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ۔ لمحہ فکریہ
تحریر: رفیع صحرائی
خبر ہے کہ پنجاب میں شرح طلاق میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف ایک سال کے عرصے میں دو لاکھ شادیوں کا انجام طلاق کی صورت میں نکلا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں پنجاب بھر میں دو لاکھ سے زائد طلاق کے نوٹیفکیشن جاری ہونا صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ہمارے سماجی ڈھانچے میں بڑی دراڑ کی نشاندہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق لاہور 21ہزار سے زائد کیسز کے ساتھ سرِفہرست ہے جبکہ فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر اضلاع میں بھی صورتحال تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف گھریلو زندگی کے عدم استحکام کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی، اخلاقی اور معاشی نظام میں موجود خرابیوں کا آئینہ بھی ہیں۔ طلاق کے یہ دو لاکھ کیسز تو وہ ہیں جو سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ایسے کیسز کی تعداد بھی بہت ہے جو زبانی طلاق پر منتج ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں خاندانوں کا ٹوٹنا لمحہ فکریہ ہے۔ سوسائٹی کو اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیے! ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے طلاق میں اس قدر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں اس رجحان کی بڑی وجوہات میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار، دین سے دوری، معاشی دبائو اور مہنگائی، خاندانوں کا ٹوٹا ہوا نظام، عدم برداشت، تربیت کی کمی، والدین کی بے جا مداخلت اور دبائو، کم عمری میں شادی جیسے عوامل کا بڑا ہاتھ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے جانے والے ڈراموں کے گلیمر اور مصنوعی چکاچوند نے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیور بھابھی، سسر بہو، ساس، داماد اور سالی بہنوئی کے معاشقے دکھا کر ان ڈراموں کے ذریعے غیرمحسوس انداز میں لوگوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے تحاشا اور اندھا دھند استعمال بھی اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ موبائل فون ہر لڑکے لڑکی اور مرد و عورت کے استعمال میں ہے۔ غیراخلاقی ویب سائٹس نے اکثریت کو اخلاق باختہ بنا دیا ہے۔ قرآن پاک کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا ہے۔ خصوصاً ٹک ٹاک نے بے حیائی پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ فحش ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکر نوجوان نسل کے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ ٹک ٹاک پر بے حیائی پھیلانے والے اپنی ویڈیوز کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کماتے نظر آتے ہیں تو ان سے متاثر ہو کر عزت دار گھرانے کی لڑکیاں اور لڑکے بھی اسی راہ پر تیزی سے گامزن ہو رہے ہیں۔ اس سی بڑی بدقسمتی کیا ہو گی کہ سگے بہن بھائی ہیرو اور ہیروئن بنے ہوئے مخرب اخلاق ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ پیسے کی چکا چوند نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے۔
نوجوان دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے آج شخصیت سازی، اخلاقی تربیت اور دینی تعلیم گھر اور تعلیمی اداروں سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً رشتوں میں استحکام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا نے خواہشات کے گھوڑے کو بھی بے لگام کر دیا ہے۔ شادی شدہ لڑکیاں لگعری لائف سٹائل سے متاثر ہو کر اس طرزِ زندگی کی خواہشمند ہوتی ہیں۔ خاوند کم آمدنی کی وجہ سے ضروریات پوری نہیں کر پاتا تو بعض لڑکیاں راستہ بھٹک جاتی ہیں جس کا نتیجہ طلاق اور بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ طلاق کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ بے جوڑ شادی بھی ہے۔ عمروں کا فرق، حیثیت اور مرتبے کا فرق، ماحول اور تعلیم کا فرق، شہری اور دیہاتی زندگی کا فرق مس انڈرسٹینڈنگ اور تلخیوں کے اسباب ہیں۔ ایسے میں اگر صبر و تحمل اور ضبط و احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کم عمری کی شادی بھی بڑے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ جن گھروں میں والدین بات بات پر بے جا مداخلت کرتے ہیں وہاں سے بھی سکون جلد رخصت ہو جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم خاندان کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بڑے روایات اور خاندانی قدروں کے امین ہوتے ہیں۔ وہ قدم قدم پر سمجھاتے رہتے ہیں۔ جو جوڑے شادی ہوتے ہی علیحدہ گھر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں انہیں سمجھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اختلاف کی خلیج بڑھتے بڑھتے مخالفت اور پھر دشمنی میں بدل جاتی ہے جو طلاق کا باعث بن جاتی ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران لاہور میں 21ہزار سے زائد طلاق نوٹیفکیشن، فیصل آباد میں 14ہزار، راولپنڈی میں 11ہزار، گوجرانوالا میں 8ہزار، سیالکوٹ میں 5ہزار جبکہ اوکاڑا اور ساہیوال میں 4ہزار سے زائد طلاق نوٹیفکیشز کا اجراء ظاہر کرتا ہے کہ تقریباً ہر بڑے شہر میں خاندانی نظام تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو کیسے روکا جائے۔ اس کے لیے کچھ قابلِ عمل تجاویز یہ ہو سکتی ہیں۔
ہمارے ہاں بھی دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح میرج کونسلنگ کو رائج ہونا چاہیے۔ شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کے لیے ایک یا دو روز تربیتی ورکشاپ ہونی چاہیے۔ خاندان کا کردار شادی شدہ جوڑوں کے لیے رہنمائی اور مدد کرنے والا ہونا چاہیے نا کہ تماشا دیکھنے والا اور جھگڑوں کو بڑھانے والا ہو۔ اسکولوں، کالجوں اور گھروں میں بچوں کی کردار سازی پر توجہ دی جائے۔ انہیں برداشت اور ذمہ داری سکھائی جائے۔ خواتین پر گھریلو تشدد کی ہر جگہ اور ہمیشہ حوصلہ شکنی اور روک تھام کی جانی چاہیے مگر ساتھ ہی مردوں کے مسائل اور دبا کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اختلافات کی صورت میں میاں بیوی کو بڑا فیصلہ لینے کی بجائے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایک دو سیشن ہی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور گھر ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے۔ طلاق کی شرح کم کروانے میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ڈراموں میں طلاق، جھگڑوں اور بے راہ روی کو گلیمرائز کرنے کی بجاءے مثبت گھریلو اقدار کو فروغ دیا جائے۔ بے جوڑ شادیوں سے احتراز کیا جائے۔
یاد رکھیے! طلاق صرف دو افراد کی کہانی نہیں ہوتی۔ یہ طلاق یافتہ والدین کے بچوں کی پوری زندگی تباہ کر دیتی ہے۔ ان کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار اور پوری زندگی طعنہ زنی کا نشانہ بنتے ہیں۔ طلاق مسائل کو حل نہیں کرتی بلکہ یہ نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ معاشرتی بے حسی، انا، برداشت کی کمی، معاشی دبا اور سوشل میڈیا ہمارے خاندانی ڈھانچے کو تیزی سے کمزور کر رہے ہیں۔ اگر موجودہ صورتِ حال پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والی نسلیں شدید نفسیاتی، معاشرتی اور خاندانی بحرانوں کا شکار ہو جائیں گی۔





