ہڑتال یا ضرورت؟ ٹرانسپورٹ سیکٹر پر بڑھتے بوجھ کا سنگین اثر

ہڑتال یا ضرورت؟ ٹرانسپورٹ سیکٹر پر بڑھتے بوجھ کا سنگین اثر
تحریر: عابد ایوب اعوان
ملک بھر میں ٹرانسپورٹ سیکٹر ایک بار پھر شدید اضطراب کا شکار ہے۔ بھاری ٹریفک پر مسلسل بڑھتے ہوئے جرمانوں اور چالانوں کے خلاف ٹرانسپورٹ ایکشن کمیٹی نے 8دسمبر کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ، ہیوی وہیکلز اور مال بردار گاڑیوں کا پہیہ رکا تو اس کے اثرات صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے ملک کی معاشی سرگرمیوں کو جام کر دیں گے۔
پاکستان کی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ ٹرانسپورٹ کے گرد گھومتا ہے۔ کھاد، گندم، چینی، سیمنٹ، اسٹیل، برآمدی سامان اور صنعتی پیداوار، ہر چیز انہی ہیوی وہیکلز کے ذریعے اپنے مقامات تک پہنچتی ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہیوی ٹرانسپورٹ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ لیکن یہی ریڑھ کی ہڈی آج حکومتی پالیسیوں کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے۔
ٹرانسپورٹرز کا موقف واضح ہے: اگر حکومت نے ٹرانسپورٹ سیکٹر کے جائز مطالبات تسلیم نہ کیے تو ہڑتال ناگزیر ہو گی۔ اُن کے مطابق بھاری چالان، غیر منطقی قوانین، اور غیر ضروری سختیاں ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ٹرانسپورٹ بند ہونے سے نہ صرف سڑکیں ویران ہوتی ہیں بلکہ کارخانے رک جاتے ہیں، منڈیاں خالی ہو جاتی ہیں، روزگار متاثر ہوتا ہے، سپلائی چین ٹوٹ جاتی ہے اور مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔
احتجاج ہمیشہ آخری راستہ ہوتا ہے، مگر جب بات چیت، مذاکرات اور شنوائی کے دروازی بند کر دئیے جائیں تو پھر سڑکیں ہی آواز اٹھانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس ہڑتال کا مقصد ملک کو روکنا نہیں بلکہ حکومت کو یہ یاد دلانا ہے کہ یہ شعبہ محض گاڑیوں کا مجموعہ نہیں، یہ پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔
8 دسمبر کی ہڑتال اصل میں ایک وارننگ ہے۔ اگر حکومت نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا تو یہ بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ حکومت ٹرانسپورٹرز کے نمائندوں سے فوری مذاکرات کرے، بھاری جرمانوں کے حوالے سے قابلِ قبول پالیسی ترتیب دے، اور معاملات کو تصادم کے بجائے اتفاق رائے سے حل کرے۔
ملک کا معاشی پہیہ چلتا رہنا چاہیے۔ اس وقت ضرورت ٹکرائو کی نہیں، تعاون اور سمجھوتے کی ہے۔





