فیلڈ مارشل چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر

اداریہ۔۔۔۔
فیلڈ مارشل چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر
صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو پاکستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز ( سی ڈی ایف) کے طور پر تعینات کرنے کی منظوری ایک اہم قدم ہے، جس کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں استحکام اور تسلسل کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز تعیناتی پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔ وہ اس وقت پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف ہیں اور اب انہیں چیف آف ڈیفنس فورسز کے منصب پر بھی فائز کیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کا مقصد پاکستان کی تمام فوجی خدمات (آرمی، ایئر فورس اور نیوی) کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنا ہے تاکہ ملک کے دفاع کو مضبوط بنایا جا سکے۔ سیدعاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی فوج نے متعدد چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور ان کی عسکری حکمت عملی نے نہ صرف پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ رکھا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی عسکری قوت کو نمایاں کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعیناتی کو عصری اور جدید جنگی تقاضوں کے مطابق قرار دیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک مشترکہ وژن کے تحت ملکی دفاع کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔پاکستان کی عسکری قیادت میں یہ تبدیلی ایک اہم دفاعی اصلاحات کا حصہ ہے۔ پاکستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ اس بات کا غماز ہے کہ ملک میں فوجی اداروں کے درمیان مزید ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ اس نئی تعیناتی کے ذریعے یہ امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی تمام دفاعی فورسز کے درمیان معلومات کا تبادلہ، حکمت عملی کی ہم آہنگی اور آپریشنل تعاون میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی فوج اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکے گی اور عالمی سطح پر پاکستان کا دفاعی موقف مزید مستحکم ہوگا۔یہ اقدام عالمی سطح پر پاکستان کی فوج کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے ضروری تھا۔ متعدد عالمی سیکیورٹی چیلنجز جیسے کہ دہشت گردی، سرحدی جھڑپیں اور علاقائی سیاسی کشیدگیاں پاکستان کے دفاعی حکمت عملی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک مضبوط، ہم آہنگ اور مربوط دفاعی قیادت کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ پاکستان کے ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی مدت ملازمت میں توسیع بھی ایک اہم فیصلہ ہے۔ پاکستان فضائیہ نے حالیہ برسوں میں کئی اہم معرکوں میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان کی فضائیہ نے دشمن کے جنگی طیاروں کو تباہ کر کے اپنی جنگی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے، اور اس توسیع سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت فضائیہ کی اہمیت اور اس کے مستقبل کی طرف سنجیدہ ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی موجودہ قیادت اور عاصم منیر کی عسکری قیادت کے ساتھ تعاون ملک کے دفاع میں ایک اہم کڑی بن سکتا ہے، جس سے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی مزید مستحکم ہو سکتی ہے۔ بابر سدھو کی قیادت میں فضائیہ نے جدید جنگی ٹیکنالوجی کو اپنایا ہے اور دشمن کے حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے، ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے پاکستان کی فضائیہ کو جدید ترین جنگی حکمت عملیوں میں مزید بہتری لانے کا موقع ملے گا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کو ایک نئی سمت مل سکتی ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان کا عزم اور حکمت عملی پاکستانی عوام کے لیے امید کی کرن ہے۔ تاہم، فیلڈ مارشل عاصم منیر کے لیے یہ وقت ایک نہایت نازک دور کا آغاز ہے۔ انہیں نہ صرف ملک کے اندر موجود دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی سیکیورٹی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت کو ایک ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے ملک کے تمام دفاعی شعبوں میں ہم آہنگی اور تعاون میں اضافہ ہو، تاکہ پاکستان اپنے دفاعی مفادات کو موثر طریقے سے تحفظ دے سکے۔ ملک کی دفاعی فورسز میں ہم آہنگی اور قیادت کے تسلسل کا معاملہ صرف فوجی حکمت عملی تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ملکی یکجہتی کا بھی آئینہ دار ہے۔ اگرچہ عسکری قیادت میں تبدیلی ایک معمولی عمل سمجھا جا سکتا ہے، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے، اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی فوج ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنے دفاعی ذمے داریوں کو ادا کرے گی اور یہ ملک کے لیے خوش آئند ثابت ہو سکتا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز تعیناتی اور ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی مدت ملازمت میں توسیع سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت اپنے ملک کے دفاع کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی ہمیں ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کا دفاع اور خوشحالی یقینی بنائی جا سکے۔
شذرہ۔۔۔۔
ملک پر قرضوں کا بڑھتا حجم
پاکستان کے مقامی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم حالیہ اعدادوشمار کے مطابق 76ہزار 980ارب روپے سے تجاوز کر چکا ، جو ملکی معیشت کے لیے سنگین چیلنج ہے۔ اس میں ایک سال میں 11.4فیصد اور ایک ماہ میں 0.5فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جو ملکی ترقی اور اقتصادی استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مقامی قرض ایک سال میں 14.3فیصد بڑھ کر 53ہزار 976ارب روپے تک پہنچ چکا ۔ یہ اضافہ معاشی بحران اور ملکی ترقیاتی منصوبوں کے لیے درکار فنڈز کے حصول کی وجہ سے ہوا ہے۔ مقامی قرضوں کا مسلسل بڑھنا نہ صرف ملک کے مالیاتی استحکام کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سود کی ادائیگیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں، جو کہ بجٹ پر دبائو ڈال رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر خدمات کی فراہمی اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔پاکستان کے بیرونی قرضے بھی ایک سال میں 5.1فیصد کے اضافے کے ساتھ 23ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے ۔ اگرچہ بیرونی قرضوں میں ایک ماہ کے دوران معمولی کمی ہوئی، تاہم ان قرضوں کا مجموعی حجم اب بھی ملکی معیشت کے لیے سنگین مسئلہ ہے۔ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم نہ صرف سود کی ادائیگیوں کو بڑھاتا بلکہ ملکی کرنسی کی قیمت اور زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی دبائو ڈالتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا دارومدار بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں پر ہے، خاص طور پر جب ملک میں قدرتی وسائل اور داخلی پیداوار کے ذرائع محدود ہیں۔ بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ اپنے تجارتی خسارے کو پورا کر سکے اور مالی بحران سے نمٹ سکے۔ تاہم اس سے ملکی معیشت میں مہنگائی اور مالی استحکام کے مسائل مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں کا اثر مختلف شعبوں پر پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں قرضوں کے بڑھتے حجم کا مسئلہ جامع حکمت عملی کے تحت حل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ضروری اصلاحات کرنی ہوں گی، جیسے کہ مقامی پیداوار میں اضافہ، برآمدات کو فروغ دینا، اور ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا۔ اس کے علاوہ، حکومت کو بیرونی قرضوں کے بجائے داخلی وسائل کے استعمال کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی تاکہ ملک کو قرضوں کی غلامی سے نجات مل سکے۔ پاکستان کے قرضوں میں مسلسل اضافہ ایک سنگین اقتصادی بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر اس بحران پر قابو پانا ہے تو حکومت کو فوری موثر مالیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے اور ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔





