ColumnImtiaz Aasi

ایک اورسانحہ کا خدشہ

ایک اورسانحہ کا خدشہ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
بانی پی ٹی آئی کی بہن حلیمہ خان نے عمران خان کی قید تنہائی کے خاتمے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔ ظاہر ہے ان کا احتجاج حسب روایت اڈیالہ روڈ پر ہی ہوگا جس کے بعد اس امر کا امکان ہے کہیں سانحہ ڈی چوک جیسا کوئی اور سانحہ پیش نہ آجائے۔ جہاں تک قید تنہائی کی بات ہے جیل کے جس احاطہ میں عمران خان کو رکھا گیا ہے بالکل اسی جگہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو رکھا گیا تھا۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے باوجود اس کے شاہد خاقان عباسی کا کسی ادارے کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تنازع نہیں تھا انہیں بی کلاس قیدیوں کے لئے مختص جگہ پر نہیں رکھا گیا بلکہ موت کی سزا پانے والے قیدیوں کے لئے مختص سیلوں میں رکھا گیا تھا جہاں آج کل بانی پی ٹی آئی قید و بند میں ہیں۔ اگرچہ یہ بات جیلر پر منحصر ہے وہ کسی قیدی کو جہاں چاہے رکھ سکتا ہے اور اس مقصد کے لئے اسے کوئی عدالت بھی حکم نہیں دے سکتی قیدی کو فلاں جگہ پر رکھا جائے۔ کسی قیدی کو جیل میں کہیں رکھنا جیلر کی صوابدید ہوتی ہے گویا اس لحاظ سے وہ ملک کا دوسرا وزیراعظم ہوتا ہے جسے قیدیوں سے متعلق لامحدود صوبدیدی اختیارات ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑر اور وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کی پریس کانفرنس سے یہ ناچیز اس نتیجہ پر پہنچا ہے حکومت آنے والے دنوں میں اڈیالہ روڈ پر پی ٹی آئی کو کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دے گی۔ دوسری جانب جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے پنجاب حکومت نے سنٹرل جیل اڈیالہ کی حفاظت کے لئے نواحی علاقے کو ریڈ زون قرار دے دیا ہے۔ اگرچہ سنٹرل جیل راولپنڈی میں گنجائش سے کہیں ہزار زیادہ قیدی ہیں جن کی تعداد کم و بیش آٹھ ہزار سے زائد ہے جن میں دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کے علاوہ کہیں غیر ملکی قیدی بھی ہیں۔ کئی سال قبل سینٹرل جیل اڈیالہ سے متصل جگہ پر ہائی سیکیورٹی جیل تعمیر کی گئی تھی بعد ازاں اداروں نے اسے غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے خطرناک قیدیوں کے لئے نامناسب قرار دے دیا تھا جس کے بعد پنجاب حکومت نے دہشت گرد قیدیوں کے لئے ہائی سیکورٹی جیل ساہیوال اور میانوالی میں قائم کی ہے۔ اس وقت کم و بیش ساٹھ موت کی سزا پانے والے دہشت گرد ہائی سیکیورٹی جیل میانوالی میں ہیں جبکہ ہائی سیکیورٹی جیل میانوالی میں ابھی تک کسی قیدی کو نہیں رکھا گیا ہے۔ سینٹرل جیل اڈیالہ کی ہائی سیکیورٹی جیل میں اب دہشت گردی میں ملوث یا پھر بعض ہائی پروفائل حوالاتیوں اور قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ ایک اردو معاصر نے لکھا ہے بانی پی ٹی آئی کو ملنے والی غیر معمولی سہولتوں کا بھی ازسر نو جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ سوال ہے بانی کو ماسوائے ایک ایکسرسائز مشین کے اور کون سی اضافی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں جن کا ازسر نو جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جیل مینوئل کے مطابق بی کلاس کیا سی کلاس کے قیدیوں کو بھی اخبارات پڑھنے کی آزادی ہوتی ہے جیسا کہ سینٹرل جیل میں ایک قیدی صبح سویر ے بیرکس میں اخبارات تقسیم کرنے پر مامور ہے، لہذا اگر بانی پی ٹی آئی کو اخبارات اور ٹی وی کی سہولت میسر ہے وہ عین بی کلاس کے قیدیوں کے لئے مختص سہولتوں کا حصہ ہے۔ عام طور پر یہ بات زد و عام ہے بانی پی ٹی آئی کو دیسی مرغی اور دیگر اشیاء باہر سے منگوانے کی اجازت ہے یہ سہولت بی کلاس کے تمام قیدیوں کو میسر ہوتی ہے۔ بی کلاس کیا سی کلاس کے قیدی بھی اپنے اخراجات پر کھانے پینے کی اشیاء باہر سے منگوا سکتے ہیں۔ سینٹرل جیل راولپنڈی میں بی کلاس کے لئے ایک الگ احاطہ ہے جس کے دونوں اطراف چار، چار کمرے ہیں، جن کے ساتھ اٹیچ باتھ رومز کی سہولت ہے، جن میں بجلی کے گیزر نصب ہیں۔ اگر ہم بی کلاس قیدیوں کے لئے مختص جگہ کا بانی پی ٹی آئی کو رکھے گئے سیل سے موازانہ کریں تو بی کلاس والی جگہ پر ایک کچن ہے، جس میں ڈی فریزر ، فریج، اوون اور دیگر ضروریات زندگی موجود ہیں۔ اگرچہ مذکورہ اشیاء محکمہ جیل خانہ کی طرف سے مہیا نہیں کی گئی ہیں بلکہ ماضی میں بی کلاس میں قیام کرنے والے وی آئی پی قیدیوں نے اپنے طور پر خرید کر کچن میں رکھی تھیں جو رہائی کے موقع پر وہیں چھوڑ کر چلے گے تھے۔ جہاں تک بانی کی قید تنہائی کی بات ہے جن سیلوں میں انہیں رکھا گیا ہے ان چاروں اطراف حفاظتی دیوار ہے جہاں عام قیدیوں اور حوالاتیوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے اگرچہ بی کلاس والی احاطے میں جیل کے دیگر قیدیوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن بی کلاس قیدیوں کے لئے مختص احاطہ میں اندرون جیل ملاقات کرنے والے قیدی بی کلاس پر مامور ہیڈ وارڈر یا وارڈر سے سب اچھا کرنے کے بعد جب چاہیں ملاقات کر سکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات کو حکومت نے انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے، حالانکہ جب آصف زرداری اور نواز شریف اسی جیل میں تھے، کیا ان سے سیاسی لوگ ملاقاتوں کے لئے نہیں آیا کرتے تھے؟۔ حکومت کے ارباب اختیار کو کسی قیدی کے جرم سے ہٹ کر خوف خدا کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور کسی سیاسی قیدی پر اتنا ہی ستم روا رکھنا چاہیے کہ مستقبل قریب میں انہی بھی ایسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حالات کی ستم ظرفی دیکھئے وہ لوگ جو اقتدار کے دوران بانی پی ٹی آئی کے دست راست تھے مشکل کی گھڑی میں اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اب ان کی ہمشیرگان اپنے بھائی کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں یا پارٹی کے چند سو ورکر اڈیالہ روڈ پر بانی کی بہنوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہماری دعا ہے سانحہ ڈی چوک کی نوع کا کوئی واقعہ سینٹرل جیل کے قریب پیش نہ آئے بلکہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے طے پا جائیں تو اسی میں بہتری ہے۔ حکومت کو بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی کے اور عمران خان کی تمام بہنوں کو ملاقات کی اجازت دے دینی چاہیے، جس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔

جواب دیں

Back to top button