Column

کراچی: روشنیوں کے پیچھے چھپا خطرہ

کراچی: روشنیوں کے پیچھے چھپا خطرہ
تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی
قلمِ حق
کراچی، وہی شہر جو کبھی روشنیوں کا بادشاہ کہلاتا تھا، جہاں راتیں نیند سے نہیں بلکہ جگمگاتی روشنیوں سے سوتی تھی، جہاں ہوا میں سمندر کی خوشبو گلیوں کی رونق سے مل کر ایک عجیب دلکشی پیدا کرتی تھی۔ لیکن آج اسی شہر کے چہرے پر غم کی وہ لکیریں اترتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جو کبھی اس کا حصہ نہیں تھیں۔ روشنیوں کی چکاچوند میں بھی اندھیروں کا سایہ محسوس ہوتا ہے۔ لوگ اب بھی دوڑ رہے ہیں، زندگی اب بھی تیز رفتار ہے، مگر اس کے بیچ ایک گہری تھکن، ایک عجیب بوجھ، ایک ناقابلِ بیان دکھ چھپا ہوا ہے۔ اور اسی دکھ کی تازہ ترین تصویر ایک تین سالہ معصوم بچے کی زندگی کے چراغ کے بجھ جانے کی صورت میں سامنے آئی ہے، جس نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔
کراچی روشنیوں کے شہر کا یہ حال ہے کہ اب یہاں کے مین ہول بھی بچوں کے لیے موت کے دروازے بن چکے ہیں۔ وہی کھلے گٹر جن کے پاس سے روز ہزاروں شہری گزرتے ہیں، وہی اندھیرے منہ جو انتظامیہ کی نااہلی کے منہ پر زوردار طمانچہ ہیں، وہی خطرناک خلا جس میں ایک معصوم بچہ آسمان دیکھتا ہوا گرا اور ہمیشہ کے لیے دنیا کی روشنیوں سے محروم ہو گیا۔ اس شہر میں جہاں بڑوں کے قدموں کے نیچے بھی زمین محفوظ نہیں، وہاں ایک تین سالہ بچے کے لیے کیا بچتا ہے سوائے دعا کے کہ وہ کسی دن کا نشانہ نہ بن جائے؟
یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں، اور شاید آخری بھی نہیں، کیونکہ کراچی کی سڑکیں اب ایسے گھائو لیے کھڑی ہیں جن کی مرمت کسی بجٹ، کسی منصوبے یا کسی اجلاس میں بھی ممکن نہیں لگتی۔ ایک طرف حکمرانوں کے قافلے گزرتے ہیں جن کے لیے سڑکیں خالی کرا دی جاتی ہیں، ٹریفک روکا جاتا ہے، اور شہریوں کو گھنٹوں انتظار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، اور دوسری طرف غریب کا بچہ اسی شہر کی گندگی، کھلے مین ہولز اور آلودہ نالوں میں پھسل کر موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔ وہ جنہیں دنیا میں ابھی کھیلنا سیکھنا تھا، وہ جنہیں ابھی لفظ ’’ زندگی‘‘ بھی نہیں آیا تھا، وہ خاموشی سے ایک ایسی موت مر جاتے ہیں جس پر شہر کے بڑے ایوانوں میں نہ کوئی بحث ہوتی ہے، نہ کسی کا دل کانپتا ہے۔کراچی کی قسمت شاید بہت عجیب ہے۔ روشنیوں کے اس شہر میں مسئلے بھی ہزار ہیں اور دکھ بھی بے شمار، مگر سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ یہاں کے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں۔ ایک طرف یہ شہر جوانوں کے خواب نگلتا ہے، دوسری طرف بچوں کی زندگیاں۔ کبھی کسی گولی کی وجہ سے، کبھی کسی پانی بھرے نالے کی وجہ سے، اور کبھی ایسے کھلے گٹر کی وجہ سے جس کا ڈھکن لگانا شاید کسی کے نزدیک اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ اس شہر کے بڑوں کی ذمہ داریاں صرف زبانی دعووں تک محدود ہو چکی ہیں، اور عملی کام شاید صرف فوٹو سیشن تک۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک تین سالہ بچے کا یوں جانا صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی جرم ہے، ایک اجتماعی بے حسی ہے، اور ایک اجتماعی ناکامی ہے جس کا وزن پورے معاشرے کے کندھوں پر ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بچپن کی معصومیت کب اس قدر غیرمحفوظ ہو گئی کہ گھر سے باہر نکلنے میں بھی خوف آنے لگا؟ وہ والدین جنہوں نے اس بچے کی ہنسی میں اپنا کل دیکھا تھا، اب ان کے دل میں صرف ایک ایسا خلا باقی رہ گیا ہے جسے کوئی لفظ، کوئی تسلی، کوئی جملہ بھر نہیں سکتا۔
کراچی روشنیوں کا شہر ضرور ہے، لیکن ان روشنیوں کے پیچھے چھپے اندھیرے اب حد سے بڑھ چکے ہیں۔ یہ شہر محنت کشوں کا ہے، خواب دیکھنے والوں کا ہے، مہربان دلوں کا ہے، مگر اسی شہر کے نظام پر ایسی اندھیری تہہ جمی ہوئی ہے جسے صاف کرنے والا شاید کوئی نہیں۔ یہاں کے گٹر مچھلتے رہیں، کچرا بڑھتا رہے، بچے مرتے رہیں، اور حکمران بیان دیتے رہیں، اسی کو شاید یہاں کی ’’ شہری زندگی‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ کراچی اپنی گود میں ہزاروں کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ کہیں خوشیوں کی، کہیں ناکامیوں کی، کہیں محبت کی، کہیں ہجرت کی۔ مگر کبھی کبھی ان کہانیوں میں ایک ایسی چیخ شامل ہو جاتی ہے جو پورے شہر کے سینے میں گونجتی ہے۔ ایک ایسا دکھ جو صرف والدین کا نہیں رہتا بلکہ پورے شہر کی رگوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ اس بچے کے والدین نے جب اس کی لاش دیکھی ہو گی تو شاید ان کے دل نے یہ سوال ضرور کیا ہو گا: ’’ کیا ہمارا شہر ہمارے بچوں کے لیے بھی محفوظ نہیں رہا؟‘‘۔
کراچی روشنیوں کے شہر کا یہ حال ہے کہ یہاں کے ہر شخص کے دل میں ایک درد چھپا ہے، ایک خوف بسا ہے، ایک بے بسی کی لکیر ہے۔ یہاں کے لوگ اگرچہ مضبوط ہیں مگر نظام ان کے زخم بھرنے نہیں دیتا۔ کبھی پینے کا پانی نہیں، کبھی بجلی نہیں، کبھی سڑکیں ٹوٹی ہوئی، کبھی نالے بھرے ہوئے۔ مگر ان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی جان کی قیمت یہاں سب سے کم ہو گئی ہے، خاص طور پر غریب کے بچے کی۔
حکمرانوں کے کانوں تک یہ آوازیں پہنچتی ضرور ہیں مگر اثر نہیں کرتی۔ شاید اس لیے کہ ان کے اپنے بچوں کے لیے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں، پروٹوکول بن جاتا ہے، راستے صاف کر دئیے جاتے ہیں۔ مگر جب کسی غریب کے بچے کی چیخ سڑک پر گونجتی ہے تو وہ چیخ ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے، اور شہر کی گندگی کے شور میں دب کر رہ جاتی ہے۔جو قوم اپنے بچوں کے لیے محفوظ سڑکیں نہیں بنا سکتی، وہ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے کیا خاک مکمل کرے گی؟ جو شہر اپنے مستقبل کو مین ہولز میں گرنے سے نہیں روک سکتا، وہ کیسے ترقی کرے گا؟ یہ صرف سسٹم کی بات نہیں، یہ شعور کی بات بھی ہے، احساسِ ذمہ داری کی بات ہے، اور دل کے جاگنے کی بات ہے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ شہر بدقسمت ہے تو یہ بھی حقیقت کا ایک پہلو ہو گا۔ مگر اصل بدقسمتی تو یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیارات ہیں، ان کے دلوں میں احساسِ ذمہ داری نہیں۔ جب حکومتی مشینری انسانیت سے خالی ہو جائے تو حادثات نہیں بلکہ سانحات جنم لیتے ہیں۔ اور یہ سانحہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔
زندگی کے کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان خود سے شرمندہ ہو جاتا ہے۔ ایک تین سالہ بچہ، جو ابھی لفظ ’’ امی‘‘ پوری طرح بول بھی نہ پایا تھا، جو ابھی دنیا کو پہچان بھی نہ سکا تھا، وہ کراچی کی ایک کوتاہی کا شکار بن گیا۔ اس کی موت ایک سوال بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہے، کیا ہماری ترجیحات اتنی بگڑ چکی ہیں کہ ایک ڈھکن لگانا بھی کسی کے اختیار میں نہیں رہا؟۔
یہ سانحہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ کراچی روشنیوں کا شہر تو ہے، مگر ان روشنیوں کے بیچ انسانیت کا چراغ بجھتا جا رہا ہے۔ یہاں ترقی کے خواب تو دکھائے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق کسی دوسری ہی دنیا کی کہانی سناتے ہیں۔ ہم اس شہر کے بارے میں جتنی محبت سے بات کرتے ہیں، اتنی ہی حقیقت اپنے اندر دکھ رکھتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ شہر کے ذمہ دار جاگیں، فیصلہ کریں، اور وہ کریں جو انسانیت کا تقاضا ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے بچوں کو محفوظ نہ بنایا تو کل یہ شہر زندہ ضرور رہے گا مگر بے حس ہو جائے گا، اور بے حس شہر قبرستانوں جیسے ہوتے ہیں۔یاد رکھیے، اللہ کی عدالت میں نہ پروٹوکول چلتا ہے نہ اقتدار۔ وہاں صرف انصاف ہے۔ اور تاریخ کی عدالت بھی کسی کو نہیں بخشتی۔ جو آج خاموش ہے، کل الزام سے نہیں بچ پائے گا۔

جواب دیں

Back to top button