پاک فوج قوم کا فخر

اداریہ۔۔۔۔۔۔
پاک فوج قوم کا فخر
پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک ظاہر و پوشیدہ دشمنوں کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اندرون و بیرون ملک بعض ایسے عناصر ہیں جو ملک و قوم کی سلامتی کے ضامن ادارے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے اور تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ پاک افواج کی ملک و قوم کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ دشمنوں کے تمام تر عزائم کو ہمیشہ انہوں نے ناکام بنایا ہے۔ اُن کی ریشہ دوانیوں کا توڑ کیا ہے۔ دشمن جب بھی حملہ آور ہوا، پاک افواج ہی تھیں، جنہوں نے ناصرف اُس کو منہ توڑ جواب دیا، بلکہ دُم دباکر بھاگنے پر مجبور بھی کیا۔ حالیہ معرکہ حق اس کی واضح مثال ہے، جب دشمن مسلسل تین روز تک حملہ آور رہا، پاک افواج نے ملک و قوم کا انتہائی جانفشانی سے دفاع کیا اور جب حملہ آور ہوئیں تو دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ بعض عاقبت نااندیش عناصر کافی عرصے سے ملک کے اندر اور باہر دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے پاک فوج کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں، لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے کہ محب وطن قوم پاک افواج کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں فوج ہمیشہ ایک اہم ستون رہی ہے، جس نے نہ صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی اپنے کردار کا مضبوط ثبوت دیا ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں اس ادارے پر کئی قسم کے سوالات اٹھائے گئے اور اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف ہونے والے بیانیے، میڈیا کے کردار اور سیاسی شخصیات کے غیر ذمے دارانہ بیانات پر کڑی تنقید کی ہے۔ ترجمان پاک فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک شخص نیشنل سیکیورٹی تھریٹ بن چکا ہے اور ان کا اشارہ ایک سیاسی رہنما کی طرف تھا، جسے وہ ’’ ذہنی مریض’’ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی شخصیات نہ صرف پاکستان کی فوج پر حملہ کر رہی ہیں بلکہ عوام میں ان کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی بھی پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان بیانات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ افراد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پاک فوج کو سیاسی تنازعات میں گھسیٹ رہے ہیں، جو ملک کی نیشنل سیکیورٹی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں ایک سیاسی شخصیت کی جانب سے فوج کے خلاف بیانات اور ان کے اثرات پر بات کی جارہی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے مطابق، جب فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تو کچھ لوگ اس کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی میڈیا اور افغان سوشل میڈیا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ دونوں پلیٹ فارمز پاکستان کے خلاف منظم بیانیہ پھیلا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے، جسے بھارت اور افغانستان کی طرف سے حمایت مل رہی ہے۔ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی کچھ سیاسی اور دیگر طاقتوں کی طرف سے فوج کے خلاف مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اور افغانستان پاکستان کے دشمن ہیں اور ان ممالک میں کچھ حلقے پاکستانی فوج کے خلاف بات کرتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اپنی گفتگو میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر کوئی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے، یا اس کی سہولت کاری کرتا ہے تو اس کے خلاف فوجی ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کی سہولت کاری پر بھی بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایسے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم ہے کہ عوام فوج کی ساتھ کھڑے رہیں اور ان عناصر کو بے نقاب کریں جو ملک کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، بلکہ اس کے اثرات پورے خطے پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ فوج کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں ہمیشہ سے موضوع بحث رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اس جنگ میں قربانیاں دے رہی اور اپنے وسائل کو قوم کی حفاظت کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ فوج اور عوام کے درمیان تعلق ایک خاص نوعیت کا ہے اور فوج کی صفوں میں شامل افسران اور جوان عوام سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دینا کہ فوج اور عوام میں کوئی فرق ہے، ایک سازش ہے جس کا مقصد قوم کے اتحاد کو توڑنا ہے۔ فوج کا مقصد ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ عوام کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا ہے۔ پاکستان کی فوج نے ہمیشہ ملک کی ترقی اور بقا کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کے کردار کو کمزور کرنا یا اس پر بے بنیاد الزامات عائد کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایک مضبوط اور متحد فوج کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو اور ملک کی اندرونی سلامتی کو برقرار رکھے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم اپنے نیشنل سیکیورٹی کے مفادات کو سمجھیں اور اپنی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان فرق کو واضح رکھیں۔ فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ پاکستان کا مستقبل محفوظ اور مستحکم ہو سکے۔
شذرہ۔۔۔۔
پنجاب: اسموگ کے تدارک کیلئے اقدامات
لاہور سمیت پنجاب کے شہر فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح کا شکار ہیں۔ شمال مغربی ہوائوں کے باعث آلودگی کی شدت میں اضافے نے شہریوں کی صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اسموگ کے حوالے سے صورت حال کسی طور مناسب نہیں۔ ایسے میں پنجاب حکومت نے فوری اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایات پر مختلف ادارے 24؍7فیلڈ میں متحرک ہیں، اور اسموگ کے سدباب کے لیے سائنسی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی لاہور جیسے بڑے شہروں کے لیے مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے۔ صنعتی سرگرمیاں، تعمیراتی کام، گاڑیوں کا بے تحاشا رش، اور فصلوں کی باقیات کا جلانا اسموگ کے اہم ذرائع ہیں۔ جس سے شہریوں کی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI)کی سطح اکثر خطرناک حد تک پہنچ جاتی ہے، جو سانس کی بیماریوں میں اضافہ اور صحت کے دیگر مسائل کا سبب بنتی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں، حکومت نے فضائی آلودگی کے سدباب کے لیے اینٹی اسموگ پلان مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اقدامات میں فصلوں کی باقیات جلانے کی روک تھام کے لیے ڈرون سرویلنس اور گرائونڈ ٹیموں کی کارروائیاں تیز کرنا شامل ہے۔ علاوہ ازیں، ریئل ٹائم ڈیٹا شیئرنگ، وارننگ سسٹم اور فوری رسپانس یونٹس کو مزید مضبوط بنایا گیا ہے تاکہ شہریوں کو آلودگی کی صورتحال سے باخبر رکھا جا سکے اور فوری ردعمل دیا جا سکے۔حکومت کی جانب سے اسموگ کنٹرول مشینری، واٹر بائوزرز اور انسپیکشن ٹیموں کو ہائی الرٹ کر دینا مثبت اقدام ہے۔ حکومت نے شہریوں، خصوصاً حساس افراد، کو ہدایت کی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، ماسک کا استعمال بڑھائیں اور پانی زیادہ پئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرے بلکہ عوام کو آلودگی کے بارے میں معلومات فراہم کرے تاکہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔ اگرچہ حکومت کے موجودہ اقدامات قابل قدر ہیں، لیکن یہ مسئلہ صرف وقتی حل سے ختم نہیں ہو سکتا۔ پنجاب حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں، لیکن اس چیلنج کا مکمل حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ حکومت عوامی آگاہی، قانون کی سختی، اور طویل المدتی حکمت عملیوں کو ایک ساتھ نہیں اپناتی۔ اس ضمن میں عوامی تعاون بھی انتہائی اہم ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ شہریوں کو اس حوالے سے مکمل طور پر باخبر کرے تاکہ اسموگ کو قابو کیا جا سکے اور لاہور کی فضا کو صاف کیا جا سکے۔







