ColumnImtiaz Ahmad Shad

ریاست اور انصاف، ایک ناگزیر رشتہ

ذرا سوچئے
ریاست اور انصاف، ایک ناگزیر رشتہ
امتیاز احمد شاد
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انصاف ہر مضبوط ریاست کی بنیادی شرط ہے۔ جب تک کسی ملک میں عدل قائم نہ ہو، وہاں امن، خوش حالی اور پائیداری پیدا نہیں ہو سکتی۔ انسانوں کے معاشرے کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی گئی ہے کہ ہر فرد کو برابر کا حق دیا جائے، اس کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور اس کو وہ سب کچھ ملے جس کا وہ مستحق ہے۔ اگر یہ اصول ٹوٹ جائے تو معاشرہ تقسیم کا شکار ہو جاتا ہے اور ریاست اندر سے کھوکھلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ہماری دین کی بنیادی تعلیم بھی یہی ہے کہ عدل قائم کرو، اور ہر معاملے میں سچائی اور دیانت سے کام لو۔ قرآن مجید میں بارہا یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ انصاف کے ساتھ کرو، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرو، خواہ وہ کمزور ہو یا طاقتور۔ قرآن مجید میں بارہا یہ اصول بیان ہوا کہ انصاف کرو، یہی راست روی کا طریقہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عدل محض ایک حکومتی ذمے داری نہیں بلکہ پوری انسانیت کا سب سے اہم وصف ہے۔
ہمارے پیغمبرٔ نے بھی اسی اصول کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ آپ نے فرمایا کہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتور مجرموں کو چھوڑ دیتی تھیں اور کمزوروں پر سختی کرتی تھیں۔ یعنی جہاں دوہرا معیار ہو جائے، وہاں کوئی معاشرہ باقی نہیں رہ سکتا۔ اس فرمان میں ایک ایسی بنیاد فراہم کی گئی ہے جس پر کسی بھی مضبوط قوم کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اگر قانون سب کے لیے ایک نہ ہو، اگر انصاف کا ترازُو برابر نہ رہے، تو معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہمارے اپنے ماضی میں ایسے حکمران گزرے ہیں جنہوں نے عدل ہی کو اپنی حکومت کی بنیاد بنایا۔ مثال کے طور پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق نہ لے لوں، اور کمزور میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک میں اس کا حق نہ دلا دوں۔ یہ الفاظ ایک ایسی حکومت کی تصویر پیش کرتے ہیں جہاں انصاف کا معیار سب کے لیے برابر ہو۔ اسی طرح دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ کے دور میں عدل اس حد تک قائم تھا کہ ان کے اپنے معاملات بھی قاضی کے سامنے عام شہری کی طرح پیش کیے جاتے تھے۔ اس دور میں قاضی کو مکمل آزادی حاصل تھی اور کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں تھا۔
یہ صرف ہمارا دینی نقطہ نظر نہیں بلکہ پوری دنیا کے سوچنے والوں کا بھی یہی مقف رہا ہے۔ قدیم یونان کے دانشوروں نے بھی انصاف کو ریاست کی بنیاد قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدل انسانی روح کو سنوارتا ہے اور قوم کو متحد رکھتا ہے۔ معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب انصاف ہر سطح پر قائم رہے۔ رومی قانون کے اصول بھی اسی حقیقت پر کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں عدل نہ ہو وہاں ریاست بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ یہی اصول بعد میں یورپ کے سیاسی نظام کی بنیاد بنا۔
آج کے دور میں بھی انصاف کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ موجودہ ریاستیں اسی لیے عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں کہ یہ دونوں معاشرے کو ظلم، افراتفری اور بدعنوانی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی انسان کے بنیادی حقوق کا تصور اسی مقصد کے لیے پیش کیا گیا کہ ہر شخص کو برابر کا حق ملے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کرے۔
جب انصاف کمزور پڑ جاتا ہے تو صرف عدالتیں نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ ظلم بڑھ جاتا ہے، طاقتور کا اختیار بے لگام ہو جاتا ہے، کمزور کا حق دب جاتا ہے اور لوگ ریاستی اداروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو انتشار اور بد امنی پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ میں بے شمار ریاستیں اس اصول کے ٹوٹنے کے بعد زوال کا شکار ہوئیں۔ خواہ وہ قدیم بنی اسرائیل کی حکومت تھی یا رومی سلطنت، یا پھر برِصغیر کی ماضی کی بڑی ریاستیں، جہاں انصاف ختم ہوا وہاں حکومت بھی باقی نہ رہی۔
انصاف کی کمی معاشی تباہی بھی لاتی ہے۔ اگر سرمایہ کار، تاجر اور عام مزدور یہ سمجھنے لگیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا تو وہ معاشی سرگرمیوں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس سے ملک کی پیداوار کم ہو جاتی ہے، روزگار میں کمی آتی ہے اور معاشی بدحالی پھیل جاتی ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ممالک ہمیشہ عدالت کے مضبوط نظام اور قانون کی بالادستی کو اپنی ترقی کی بنیاد سمجھتی ہیں۔
ہمارے دین میں عدل کا تصور صرف عدالت یا مقدمات تک محدود نہیں۔ یہاں ہر میدان میں انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ گھر میں، کاروبار میں، لین دین میں، دوستوں کے ساتھ، دشمنوں کے ساتھ، حتیٰ کہ فیصلہ کرتے وقت اپنے خلاف بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف ایک مکمل طرزِ عمل ہے جو انسان کو ہر قدم پر سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
آخر میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی ریاست انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ عدل ہی وہ قوت ہے جو عوام میں اعتماد پیدا کرتی ہے، اداروں کو مضبوط کرتی ہے، حکمرانوں کو جواب دہ بناتی ہے اور معاشرے میں امن و استحکام پیدا کرتی ہے۔ اگر عدل قائم ہو تو قومیں ترقی کرتی ہیں، ریاستیں مضبوط ہوتی ہیں اور معاشرے خوش حال بنتے ہیں۔ اگر عدل ٹوٹ جائے تو پھر کوئی طاقت، کوئی دولت اور کوئی ظاہری شان و شوکت کسی ریاست کو قائم نہیں رکھ سکتی۔
لہٰذا ہر معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ انصاف کو اپنی اصل بنیاد بنائے۔ یہی وہ چراغ ہے جو قوموں کو اندھیروں سے نکالتا ہے اور انہیں عروج کی طرف لے جاتا ہے۔ عدل ہو تو ریاست زندہ، اور عدل نہ ہو تو سب کچھ بے جان ہو جاتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button