
جگائے گا کون؟
ذہنی مریض۔۔۔۔ علاج ضروری
تحریر: سی ایم رضوان
چیف آف ڈیفنس فورسز اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے اور ملک اب اوپر کی جانب پرواز کرے گا۔ جمعرات کو ایوانِ صدر میں کرغیزستان کے صدر کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں حکومتی وزرا، مسلح افواج کے سربراہان اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ اس عشائیہ میں فیلڈ مارشل کی عاصم منیر کی وہاں موجود صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو ہوئی۔ عشائیے میں موجود صحافیوں کے مطابق فیلڈ مارشل نے کہا کہ ملک میں سب ٹھیک ہے۔ سب چیزیں بہت واضح ہیں اور پاکستان میں صورتحال میں بہتری آ رہی ہے اور ملک یہاں سے اوپر کی جانب اڑان بھرے گا۔ واضح رہے کہ یہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدے پر تعیناتی کے بعد اُن کا پہلا بیان ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں نہ صرف بہتری آئی ہے بلکہ فوج اپنے پیشہ ورانہ کاموں میں دنیا میں ایک شاندار مثال کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ان حالات میں ہر محب وطن پاک فوج اور اس کی کمان کی تعریف کر رہا ہے لیکن ملک میں ایک سیاسی جماعت روزانہ کی بنیاد پر پاک فوج کی بدنامی کرنے اور اس کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف رہتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسی بیانیے کو پاکستان کے دشمن ممالک بھرپور طریقے سے پاکستان اور پاک فوج کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا بانی پی ٹی آئی سے متعلق کہنا ہے کہ پاکستان میں سلامتی کے خطرات ایسے ذہن کی شروعات ہیں جو اپنی ہی ذات کے سحر کا قیدی ہے، وہ شخص جو بیانیہ بنا رہا ہے وہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کے ساتھ اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم پاکستان کی آرمڈ فورسز ہیں، ہم کسی علاقے، لسانیت، مذہبی جھکائو، سیاسی سوچ یا مکتب فکر کی نمائندگی نہیں کرتے، ہم میں پاکستان کے ہر علاقے، مسلک، زبان اور سوچ کے لوگ موجود ہیں، ہم کسی سیاسی جماعت کا ایجنڈا لے کر نہیں چلتے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے متعلق کہا کہ اس کے نزدیک اس کی ذات اور خواہشات ریاست پاکستان سے بڑھ کر ہیں، اس کی مایوسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں، شاید میری یہ بات عجیب لگے لیکن وہ شخص جو بیانیہ بنا رہا ہے وہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ اب بات اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہمیں کھل کر بولنا پڑے گا۔ اب ایسے کسی بیانیے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو سکیورٹی اور ڈیفنس فورسز کے خلاف ہو اور اب بات اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہمیں کھل کر بولنا پڑے گا، ان کا سب سے بڑا سہولت کار بھارتی میڈیا ہے، ذہنی مریض نے جو ٹوئٹ کی اس پر غور کریں، آپ کس فوج کے خلاف بیانیہ بتاتے ہیں؟ کس فوج کے خلاف اور کس پیٹرن میں بیانیہ بنایا جا رہا ہے؟ ذہنی مریض کے ٹوئٹ کے بعد بھارتی اور افغان میڈیا کا کردار بھی دیکھ لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کون چاہتا ہے جو فوج خوارج کے خلاف ڈھال بنی ہوئی ہے اس پر حملے کرے، یہ بیانیہ ان کی جماعت کے اکائونٹ سے چلتا ہے، اس بیانیے کو ان کا اپنا سوشل میڈیا اکائونٹ پھر بھارت پھر افغانستان کا سوشل میڈیا چلاتا ہے، ایک اکائونٹ ہے جس کا پوری پارٹی کو نہیں پتہ کہاں سے چلتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ آپ کس فوج کے خلاف بیانیہ بناتے ہیں؟ بھارتی اور افغان میڈیا جو بیانیہ بنا رہے ہیں کیا وہ فری لنچ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ذہنی مریض کے ٹوئٹ کی ٹائمنگ دیکھیں، ذہنی مریض کے ٹوئٹ کے بعد بھارتی اور افغان میڈیا کا کردار بھی دیکھ لیں، افغانستان اور بھارت ان کا بیانیہ آگے بڑھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی سیاست خود کریں فوج کو اس سے دور رکھیں۔ اصل بیانیہ اس ذہنی مریض نے دیا، ری پبلک، انڈیا ٹو ڈے، این ڈی ٹی وی نے پروپیگنڈا شروع کر دیا، یہ بھارتی را کے اکائونٹ ہیں جو اس بیانیے کو اٹھا رہے ہیں، اپنی سیاست خود کریں فوج کو اس سے دور رکھیں، ایک خاتون نے بھارتی میڈیا پر کہا خیبر پختونخوا والے ہلہ بول دیں، معرکہ حق میں دیکھا کہ یہ بھارتی چینل پاکستان کے خلاف کیا بولتے رہے؟ کتنی خوشی کے ساتھ بھارتی میڈیا آپ کے آرمی چیف کے حوالے سے بیان دے رہا ہے، بھارتی میڈیا پر 8، 8گھنٹے یہی بیانیہ چلتا رہتا ہے، بیانیہ اس لئے چلایا جا رہا ہے کیونکہ یہ پاک افواج کے خلاف بول رہا ہے۔ اس شخص کے بقول جو پاک فوج میں آئے گا وہ غدار ہے۔ افغان سوشل میڈیا پروپیگنڈے میں لگا ہوا ہے، آپ کے ملک میں بیٹھ کر ذہنی مریض ساری باتیں کر رہا ہے۔ اس شخص کے بقول جو آئی ایس پی آر آئے گا وہ غدار ہے۔ پاک فوج میں جو آئے گا وہ غدار ہے، یہ لوگ انٹرنیشنل میڈیا کے پیچھے پڑتے ہیں آپ ب اٹھائیں، جو میڈیا یہ سب کچھ چلا رہا ہے۔ تمہاری سوئی فوج پر کیوں اٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو اس شخص نے حملہ کروایا۔ شہدا کی یادگاروں کو جلایا، 9مئی کو اس شخص نے جی ایچ کیو پر حملہ کرایا، شہدا کی یادگاروں پر حملے کروائے، پاک فوج کی نشانی کو آگ لگوائی، صوبے میں حکومت ہے اس کی بات کرو، سیاست کی بات کرو، تمہاری سوئی فوج پر کیوں اٹکی ہوئی ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے سب علم ہے باقی سب غلط ہے، اگر آپ اس کے لئے کام کریں ساتھ چلیں تو آپ ٹھیک ہیں، اس شخص کی سیاست ہے کہ اگر میں اقتدار میں ہوں تو جمہوریت نہیں تو آمریت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آپ کو فوج سے کیا مسئلہ ہے؟ تمہارے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے اس کی بات کیوں نہیں کرتی، دہشت گردی کے بارے میں کیوں بات نہیں کرتے، بھارت سے تھریٹ ہے اس پر بات کیوں نہیں کرتے، تمہاری سوئی فوج کے خلاف کیوں اٹکی ہوئی ہے۔ بہرحال ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس امر پر زیادہ زور دیا کہ موصوف ایک ذہنی مریض ہے اور اس کی سوئی خواہ مخواہ فوج پر ٹکی ہوئی ہے۔
پاک فوج کے ملکی سیاست میں کردار کی اگر ماضی کے تناظر میں بات کی جائے تو حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں آئین پرستی کو پہلا شدید جھٹکا 1954ء میں گورنر جنرل کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی برطرفی اور عدلیہ کی طرف سے غیر قانونی توثیق کی صورت میں لگا۔ بیوروکریسی نے اپنے زبردستی کے اختیارات کو ذاتی تسلط کے لئے استعمال کرنے کے اپنے مقاصد کی بنا پر فوج کو سیاست میں داخل کیا۔ بعد کے سیاسی سفر میں ضیاء اور مشرف کے دور کی شکل میں مزید فوجی مداخلتیں ہوئیں، جبکہ درمیانی وقفوں میں کمزور جمہوری حکومتیں آئیں۔ جمہوری سیاست کی روایت کے باوجود، پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے ادارہ جاتی مفادات اور ان مفادات سے بالاتر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی سیاست کو جمہوری بنانے میں ناکام رہا۔ کمزور سویلین ادارے اور ناقص گورننس ایک مقناطیس کے طور پر کام کرتے ہیں جو غیر جمہوری مداخلتوں کو دعوت دیتے ہیں۔ فوج حب الوطنی کے بلند احساس سے آراستہ، مضبوط تنظیمی طاقت اور ادارہ جاتی یادداشت کو ساتھ ملا کر ریاست کے سویلین حکمرانوں کے پیدا کردہ خلا کو ماضی میں باقاعدہ وقفوں کے ساتھ پُر کرتی رہی ہے۔ تاہم، موجودہ اور پچھلی دو سویلین حکومتوں کے ادوار قومی مفاد کے طور پر جمہوری تسلسل کے حق میں سول ملٹری تعلقات میں تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہماری سول ملٹری ہم آہنگی کا پہلا اشاریہ، یعنی افسران کے طبقے کی سماجی تشکیل، ماضی کے مقابلے میں اب واضح تنوع کا اظہار کرتی ہے۔ سندھی، بلوچی اور سابق قبائلی علاقوں کے افسران کی تعداد میں اضافے کے ساتھ، بنیاد کافی وسیع ہو گئی ہے۔ دوسرا اشاریہ یعنی سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں بھی جمہوری تسلسل اور استحکام کے ذریعے بہتری آئی ہے، اگرچہ مزید بہتری کی گنجائش ابھی باقی ہے۔ تیسرا اشاریہ یعنی بھرتی کا طریقہ بھی اپنے وسیع ہونے کے لحاظ سے نمایاں بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔ چوتھا اشاریہ یعنی عسکری طرزِ عمل بھی برطانوی دور کے احساسِ برتری سے رینک، درجہ بندی اور اسٹیٹس میں تبدیلیوں کو ظاہر کر رہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے سول ملٹری تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں، حالانکہ اب بھی کئی طرح کی بہتری کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جس سیاسی شخصیت کو اب ذہنی مریض قرار دینے کی نوبت آ گئی ہے یا تو اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی گفتگو سن کر اس کے ذہنی مرض کا علاج کیا جائے یا پھر الطاف حسین والی کہانی دہرا کر فارغ کیا جائے، کیونکہ اب ملک میں سول ملٹری تعلقات بہتر ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہو رہا ہے۔ اب مزید اندرونی تجربات کی بجائے ترقی کی ابتدائی منازل طے کرتا ازبس ضروری ہے۔





