فرنٹ مین سے آن لائن تک

فرنٹ مین سے آن لائن تک
صورتحال
سیدہ عنبرین
زمانہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ معیار بدلتے دیکھے۔ ترقی کا مطلب، کامیابی کا مطلب، محنت، دیانتداری اور جدوجہد سے مقام بنانا ہوا کرتا تھا۔ وکٹری سٹینڈ پر اس کے تین درجے بنائے گئے، کبھی ہم بھی وکٹری سٹینڈ پر نظر آتے تھے، پھر ہم نے سوچا یہ تو سب لوگ کر لیتے ہیں، ہمیں کچھ اس کے سوا کرنا چاہئے، جب سے ہم ترقی معکوس کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ میدان کھیلوں کا ہو یا معاشیات کا، شعبہ خدمت کا ہو یا عدل و انصاف کا ہم وکٹری سٹینڈ سے گرنے کے بعد اب زمین میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور کسی گڑھے سے نکلنے کی خواہش بھی نہیں۔ آئی ایم ایف کی تین سالہ رپورٹ ہمارا ’’ حوصلہ بڑھانے‘‘ کیلئے کافی ہے۔ ہمیں ترقی معکوس کا سرٹیفکیٹ ایک عالمی ادارے سے ملا ہے، اس پر سب خاموش ہیں، گویا ایک اظہار اطمینان ہے۔ اس اطمینان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسی ڈگر پر سفر جاری رکھا جائے گا، کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں بہت سی دیگر خامیوں کے علاوہ رشوت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اس معاملے کو کرپشن کے زمرے میں زیر بحث لایا گیا ہے، ہمارے ملک میں کرپشن یا رشوت کی تاریخ بہت دلچسپ ہے، اس حوالے سے طے کئے گئے ترقی کے مدارج مزید دلچسپ ہیں۔ پاکستان میں رشوت کا آغاز کب ہوا، کیسے ہوا اور کس محکمے سے ہوا، یہ جاننے کی کوششیں کی گئی تو حیرت میں اضافہ ہوا۔
جس محکمے نے اس حوالے سے اس نیک کام کا آغاز کیا وہ محکمہ پولیس ہے، جہاں صرف محکمہ پولیس تھا، اس کے مختلف شعبے جیسے ٹریفک پولیس وغیرہ نہیں تھے۔ ملک میں ٹریفک سگنل نہیں تھے، ہر چوک میں ایک پولیس کانسٹیبل کھڑا ہو کر اشارہ کرتا تھا رک جائو یا گزر جائو۔ ٹریفک میں سائیکلیں، ریڑھے، گھوڑا گاڑیاں، گدھا گاڑیاں جبکہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں سڑکوں پر اونٹ گاڑیاں بھی چلتی تھیں، تانگہ یا بگھی ایسی سواری تھی جو پاکستان کے ہر شہر میں نظر آتی تھی، رات کے وقت ہر سواری کیلئے ضروری تھا کہ اس کے ساتھ روشنی کا کوئی نہ کوئی انتظام ہو، تا کہ دور سے آنے والوں کو معلوم ہو سکے کہ کوئی سواری آ رہی ہے، وہ اس سے ٹکرانے سے محفوظ رہ سکے۔ سائیکل کے سامنے چھوٹی سی بتی، دائیں طرف ہینڈل پر ایک گھنٹی۔ تانگے، بگھی، ریڑھے کے دونوں پہیوں پر تیل سے چلنے والے دیئے، لیمپ روشن کئے جاتے تھے۔
دن ہو یا رات سائیکل سوار اگر کانسٹیبل کے ہاتھ کے اشارے کو سمجھنے میں غلطی کرتا تو بطور سزا کانسٹیبل اس کے پہیے کی ہوا نکال دیتا اور اس سزا کو کافی سمجھتا، غلطی کرنے والے کو خاصا فاصلہ پیدل چلنا پڑتا، یوں وہ کوشش کرتا کہ ٹریفک کانسٹیبل کے اشارے پر رکے یا چلے۔ جن سواریوں کو جانور کھینچتے تھے وہ کبھی کبھار کانسٹیبل کے حکم کی تعمیل نہ کرتے اور اس کی ریڈ لائن کراس کر جاتے تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو جاتا، چوک چھوڑ کر پرسش کیلئے آ جاتا تو کوچوان کہتا تھانیدار جی بہت کوشش کی مگر کیا کروں جانور ہے وہ رکتے رکتے کچھ آگے چلا گیا۔ کانسٹیبل کو جب تھانیدار کہہ کر مخاطب کیا جاتا تو اس کا غصہ کافور ہو جاتا، لیکن وہ اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے کوچوان سے سانٹا چھین کر جانور کو چار اور کوچوان کو دو ضربات لگاتا۔ بس ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا یہی جرمانہ کافی سمجھا جاتا۔ ترقی کی ایک منزل طے ہوئی تو ٹریفک کانسٹیبل نے بطور جرمانہ سائیکلوں کے وال نکالنا اور گھوڑا گدھا گاڑیوں سے ایک سگریٹ طلب کرنا شروع کر دیا۔ یہاں سے بات سگریٹ کی ڈبیہ تک پہنچی، پھر معاملات چونی، اٹھنی، روپے، دو روپے سے ہوتے ہوئے آگے بڑھنے لگے، ابتداء میں رشوت کے سکے براہ راست جیب میں ڈال لئے جاتے تھے، پھر نوٹ ٹوپی میں چھپانے کا فیشن آ گیا۔ مزید ترقی ہوئی تو ہر چوک میں پان سگریٹ والے کھوکھے کو رشوت کی رقم جمع کرنے کا فرنچائز دیا جانے لگا۔
کھلے آسمان تلے گرمی، دھوپ، بارش میں یاد نہ رہتا کہ کھوکھے والے فرنچائز کی طرف کتنے مجرموں کو ریفر کیا گیا تھا ، یوں وہ رشوت کی اکٹھی کی جانے والی رقم میں سے کانٹی مار پروگرام کے تحت اپنا حصہ پہلے ہی نکال لیتا اور اردو محاورے میں جان ڈالتا کہ چوروں کو پڑ گئے مور۔ وقت کے ساتھ گھوڑا گدھا گاڑیاں نہ رہیں، ان کی جگہ رکشہ، ٹیکسی آ گئی، سائیکلوں کی جگہ موٹر سائیکلوں اور کاروں نے لے لی۔ آبادی بڑھنے اور سڑکوں پر اژدھام بڑھنے سے فضل ربی میں بہت اضافہ ہوا۔ اکثر حضرات اپنا گھر تعمیر کرتے تو اس کی پیشانی پر یہ لفظ ضرور لکھواتے۔ حالانکہ رب نے تو اپنے رسولؐ کے ذریعے واضع پیغام دے دیا تھا رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں، لیکن دین کے ٹھیکیداروں نے رشوت لینے والوں اور رشوت دینے والوں کے دل سے جہنم کا خوف نکالنے میں بہت مدد کی اور اس طبقے کو یقین دلایا کہ جتنے مرضی گناہ کر لو بس حج کر آئو اور باقاعدگی سے ہر سال کرتے رہو تو ہر سال کی رشوت اور دیگر بدکاریاں دھل دھلا کے صاف ہوتی رہیں گی۔ بتایا گیا کہ انسان یوں پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے شکم سی آیا بچہ معصوم ہوتا ہے، شاید ایسا ہی ہو، ہم تو کم علم ہیں، اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ٹریفک کانسٹیبل سے شروع ہونے والی نقد رشوت نے ہر ادارے کو اپنی لپیٹ میں لیا تو وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی گئی۔ جنگل میں آگ بجھانے کیلئے فائر بریگیڈ ہم نے کسی بھی زمانے میں نہیں دیکھے، اس طرح رشوت کی آگ بجھانے کیلئے بھی خاطر خواہ انتظامات نہ کئے جا سکے، اگر صرف ہر برس اثاثے ڈکلیئر کرنے اور کارکردگی کو معیار مقرر کیا جاتا تو آج اس آگ کی لپیٹ میں پورا نظام نظر نہ آتا۔
رشوت اکٹھی کرنے کیلئے فرنٹ مین مقرر کرنے کا دور آیا اور اس طریقہ کار کے تحت محفوظ کرپشن کو خاصا فروغ حاصل ہوا۔ رنگے ہاتھوں پکڑنے جانے کا خوف بھی جاتا رہا۔ اس حوالے سے تازہ ترین ترقی کی جو منزل حاصل ہوئی ہے وہ آن لائن ہے، اب سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے، غالباً یہ سب سے محفوظ سمجھا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس محکمہ ریونیو میں سرکاری اکائونٹ سے سوا دو سو ارب روپے نکل جانے کا انکشاف محکمہ کے مشیر جناب جوندہ صاحب نے کیا تھا۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا یہ کامیاب واردات کس نے کی، یہ پیسہ کہاں گیا، ترقی کا سفر جاری ہے، شاید منصوبے کے تحت دس برس جاری رہے۔





