ColumnQadir Khan

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی گونج: دانشمندی یا تباہی کا پیش خیمہ؟

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی گونج: دانشمندی یا تباہی کا پیش خیمہ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں اور پشاور کے سیاسی حلقوں میں ان دنوں ایک بازگشت بہت تواتر کے ساتھ سنائی دے رہی ہے، اور وہ ہے خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا نفاذ۔ بظاہر اس کی وجہ صوبے میں امن و امان کی ابتر صورتحال، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور حالیہ سیاسی کشیدگی بتائی جا رہی ہے، مگر اس انتہائی اقدام کے پس پردہ محرکات اور اس کے ممکنہ مضمرات اتنے سادہ نہیں جتنے نظر آتے ہیں۔ جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جب بھی سکیورٹی کے مسائل کو بنیاد بنا کر جمہوری عمل کو معطل کیا گیا، نتائج ہمیشہ توقعات کے برعکس برآمد ہوئے۔ آج خیبر پختونخوا جس نازک موڑ پر کھڑا ہے، وہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ایسا صوبہ جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے، کیا وہاں سیاسی حکومت کا خاتمہ اور وفاق کے نمائندے کا براہِ راست کنٹرول امن لا سکتا ہے؟ یا پھر یہ فیصلہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا؟۔
سب سے پہلے ہمیں اس بیانیے کا تجزیہ کرنا ہوگا جو گورنر راج کے حق میں گھڑا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، لہٰذا وفاق کو مداخلت کرنی چاہیے۔ بلاشبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی صورتحال تشویشناک ہے۔ کرم ایجنسی کے فرقہ وارانہ فسادات ہوں، بنوں اور ڈی آئی خان میں سکیورٹی فورسز پر حملے ہوں یا شمالی اضلاع میں عسکریت پسندوں کی دوبارہ منظم ہوتی ہوئی سرگرمیاں، یہ سب حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن یہاں ایک بنیادی اور تلخ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا امن و امان کا قیام صرف صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے؟ آئینِ پاکستان کے تحت سرحدوں کی حفاظت، انٹیلی جنس شیئرنگ اور انسدادِ دہشت گردی کے بڑے آپریشنز وفاقی اداروں اور عسکری قیادت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے جسے صرف بندوق کی نالی سے جیتا جا سکے۔ یہ ’’ دلوں اور دماغوں‘‘ کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں سب سے اہم ہتھیار عوامی تائید ہے۔ جب تک مقامی آبادی ریاست کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی، کوئی بھی انٹیلی جنس نیٹ ورک یا فوجی آپریشن مکمل کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ سوات اور مالاکنڈ کے ماضی کے آپریشنز گواہ ہیں کہ کامیابی تب ملی جب سیاسی حکومت، فوج اور عوام ایک صفحے پر تھے۔ آج اگر گورنر راج لگا کر سیاسی حکومت کو منظر نامے سے ہٹا دیا گیا، تو عوامی تائید کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ عوام یہ سمجھیں گے کہ انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ وہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے بیگانگی کا شکار ہو جائیں گے۔ سیاسی عدم استحکام ہمیشہ دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جب انتظامیہ کی توجہ سیاسی کارکنوں کو پکڑنے، جلسے جلوس روکنے اور منتخب حکومت کے ارکان کو دبانے پر مرکوز ہو جائے گی، تو دہشت گردوں کے خلاف فوکس خود بخود کم ہو جائے گا۔ یہ ایک قدرتی امر ہے۔ پولیس اور انتظامیہ بیک وقت دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتیں۔ اگر وہ سیاسی مخالفین کو کچلنے میں مصروف رہیں گی تو دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔
یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ صوبائی حکومت وفاق کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف ہے اس لیے امن و امان قائم نہیں ہو رہا۔ یہ ایک سطحی تجزیہ ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ آئینی دائرہ کار میں ہوں۔ اگر اختلافات ہیں تو ان کا حل مذاکرات، مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI)اور ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں میں ہے، نہ کہ حکومت ختم کرنے میں۔ قومی ایکشن پلان (NAP)کی کامیابی کے لیے سیاسی اتفاق رائے اشد ضروری ہے۔ گورنر راج اس اتفاق رائے کی موت کا پروانہ ہوگا۔ کیا ایک تنہا گورنر اور بیوروکریسی ان پیچیدہ قبائلی اور سماجی مسائل کو سمجھ سکتی ہے جو وہاں کی مقامی قیادت سمجھتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ مقامی نمائندے، چاہے وہ کسی بھی جماعت کے ہوں، اپنے حلقوں کے نبض شناس ہوتے ہیں۔ وہ جرگوں کے ذریعے، مقامی عمائدین کے ذریعے اور عوامی رابطوں کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کرم ایجنسی میں ہونے والے حالیہ فسادات کی مثال لے لیجئے۔ وہاں امن تب ہی قائم ہوا جب مقامی قیادت اور انتظامیہ نے مل کر کوششیں کیں۔ اگر وہاں صرف ڈنڈے کے زور پر امن لانے کی کوشش کی جاتی تو شاید آگ مزید پھیل جاتی۔
آئینی اور قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آرٹیکل 58-2(b)کے خاتمے کے بعد، پارلیمانی نظام کی روح یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔ اگر کوئی حکومت نااہل ہے تو اسے عوام اگلے انتخابات میں مسترد کر دیں گے، یا پھر عدم اعتماد کے ذریعے ایوان کے اندر اسے تبدیل کیا جائے، نہ کہ صدارتی فرمان کے ذریعے گورنر راج مسلط کر دیا جائے۔ سیاسی عدم استحکام کا علاج مزید عدم استحکام نہیں ہو سکتا۔ اگر صوبائی حکومت امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہے تو وفاق کا فرض ہے کہ وہ آرٹیکل 148کے تحت صوبے کی مدد کرے، نہ کہ اس پر قبضہ کر لے۔ آئین وفاق کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کرے، رینجرز یا فوج تعینات کرے اور انٹیلی جنس شیئرنگ کو بہتر بنائے۔ یہ سب اقدامات جمہوری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ گورنر راج کا شوشہ دراصل سیاسی دبا بڑھانے کا ایک حربہ تو ہو سکتا ہے، لیکن بطور حکمت عملی یہ ایک تباہ کن فیصلہ ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے حالات بلاشبہ سنگین ہیں، لیکن ان کا حل جمہوری عمل کو معطل کرنے میں نہیں بلکہ اسے مزید مضبوط کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جب سکیورٹی کے حالات خراب ہوں، جب عوام خوفزدہ ہوں اور جب دشمن گھات لگائے بیٹھا ہو، تو یہ وقت سیاسی مہم جوئی کا نہیں ہوتا۔ یہ وقت سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے۔ صوبائی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست کو کم کر کے اپنی تمام تر توجہ صوبے کے امن پر مرکوز کرے، اور وفاق کو چاہیے کہ وہ صوبے کو ایک حریف کے بجائے ایک اتحادی کے طور پر دیکھے۔۔ گورنر راج کا نفاذ ایک ایسا شارٹ کٹ ہے جو ہمیں منزل کے قریب لے جانے کے بجائے ایک ایسی دلدل میں دھکیل دے گا جہاں سے واپسی کا راستہ شاید بہت دشوار ہو۔

جواب دیں

Back to top button