پاک فضائیہ: طاقت، عزم اور جدت

اداریہ۔۔۔۔
پاک فضائیہ: طاقت، عزم اور جدت
پاکستان کی فضائی قوت، یعنی پاک فضائیہ (پی اے ایف)، عالمی سطح پر ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ہمیشہ سے نہ صرف دفاعی اعتبار سے بلکہ تکنیکی مہارت اور جدید جنگی حکمت عملیوں کے لحاظ سے بھی نمایاں پوزیشن کی حامل رہی ہے۔ سربراہ پاک فضائیہ ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا حالیہ خطاب پی اے ایف اکیڈمی اصغر خان، رسالپور کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں ایک مرتبہ پھر پاک فضائیہ کی بھرپور طاقت، عزم اور پیشہ ورانہ مہارت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایئرچیف مارشل نے اپنی تقریر میں جس اہم نکتے کو اجاگر کیا، وہ یہ تھا کہ اگر پاکستان کی خودمختاری کو دوبارہ چیلنج کیا گیا تو دشمن پاک فضائیہ کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور تیار پائے گا۔ یہ بیان نہ صرف دشمنوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی فضائی قوت کسی بھی قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایئرچیف مارشل نے اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان کی فضائیہ نے ہمیشہ کم وسائل اور محدود ٹیکنالوجی کے باوجود دشمن کے جدید ترین طیاروں کو تباہ کیا ہے اور اپنی دفاعی حکمت عملی میں بہترین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جب پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کیا گیا، پاک فضائیہ نے دشمن کے طیاروں کو گرایا اور اس کی فضائی قوت کو موثر طریقے سے شکست دی۔ یہ پاکستان کی فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت، جدید ٹیکنالوجی کی مہارت اور جنگی حکمت عملی کا واضح ثبوت ہے۔ ایئرچیف نے بتایا کہ پاکستان نے اپنی فضائی حکمت عملی کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر جدید فضائی لڑائی کی مثال قائم کرسکے۔ اس میں اسمارٹ انڈکشن پروگرام کے ذریعے جدید لڑاکا طیارے اور ٹیکنالوجیز کا تیز رفتار انضمام شامل ہے، جس نے پاک فضائیہ کو جنگ کے جدید دور میں مزید موثر اور مستحکم بنادیا۔ یہ جدت طرازی اور تخلیقی حکمت عملی پاکستان کی فضائی قوت کو منفرد بناتی اور دشمن کے لیے ایک خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں سعودی کیڈٹس کی موجودگی ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ ایئرچیف مارشل نے اس بات پر زور دیا کہ یہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون کی علامت ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان گہرے تعلقات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات میں یہ نئی جہت پاک فضائیہ کی عالمی سطح پر اہمیت اور اسٹرٹیجک افادیت کو مزید مستحکم کرتی ہے۔ سعودی فضائیہ کے 20کیڈٹس کا پی اے ایف اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہونا دونوں ممالک کے مابین مزید ہم آہنگی اور اتحاد کا مظہر ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کا ہر ایک طیارہ، ہر ایک پائلٹ اور ہر ایک اہلکار قوم کے دفاع میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایئرچیف مارشل نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاک فضائیہ کی یہ کامیابیاں اور طاقت صرف اس کی جدید ٹیکنالوجی اور لڑاکا طیاروں کی بدولت نہیں، بلکہ اس کا راز اس کے پیشہ ورانہ طرزِ عمل، عزم اور محنت میں چھپا ہوا ہے۔ پاک فضائیہ کے تمام اہلکار اپنی ذمے داریوں کو انتہائی محنت اور دل سے نبھاتے ہیں اور یہی جذبہ انہیں اپنی پیشہ ورانہ مہارت میں سرفہرست رکھتا ہے۔ ایئرچیف نے ان اہلکاروں کی محنت اور ہمت کو سراہا اور کہا کہ پاکستان کی فضائیہ کی عظمت کا راز اس کے ہر فرد کی محنت اور قربانیوں میں ہے۔ ان کی دلیرانہ کاوشوں کی بدولت ہی پاکستان نے اپنی فضائی سرحدوں کا بھرپور دفاع کیا اور دشمن کو شکست دی ہے۔ایئرچیف مارشل نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پاکستان ایک ذمے دار جوہری طاقت کے طور پر عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا عزم یہ بھی ہے کہ وہ عالمی امن کے لیے کام کرے گا اور تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے گا، بشرطیکہ پاکستان کی خودمختاری اور قومی مفادات کو چیلنج نہ کیا جائے۔ یہ بیان ایک مضبوط پیغام ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اپنی قوم کے دفاع میں ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں اور یہ عزم صرف فضائیہ تک محدود نہیں بلکہ تمام افواج کے لیے ہے۔ پاک فضائیہ کی موجودہ ترقی اور پیشہ ورانہ مہارت کو دیکھتے ہوئے، مستقبل میں بھی پاکستان کی فضائیہ ایک عالمی سطح کی طاقت بن کر ابھرے گی۔ ایئرچیف مارشل کے مطابق اگر پاکستان کی خودمختاری کو دوبارہ چیلنج کیا گیا، تو دشمن پاک فضائیہ کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور تیار پائے گا۔ یہ نہ صرف پاکستان کی فضائی قوت کی طاقت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ پاکستان ہر ممکن قدم اٹھائے گا، تاکہ اپنی فضائی سرحدوں کا بھرپور دفاع کرسکے۔ پاک فضائیہ کی حالیہ کامیابیاں نہ صرف اس کے پیشہ ورانہ طرزِ عمل اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بلکہ یہ پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں اور عزم کی بھی غماز ہیں۔ ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کا خطاب اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ پاکستان کی فضائیہ دفاعی لحاظ سے ہر ممکن تیاری کے لیے پُرعزم ہے اور اگر ضرورت پڑی تو دشمن کے لیے ایک اور چیلنج بن کر سامنے آئے گی۔ پاکستان کی فضائیہ کی مہارت، ہم آہنگی اور اتحاد کا مظاہرہ آنے والے برسوں میں نہ صرف ملکی سلامتی کو مستحکم کرے گا، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کا عزت و وقار بھی بلند کرے گا۔
شذرہ۔۔۔
تجارتی خسارے میں اضافہ
پاکستان کی معیشت کو رواں مالی سال 2025-26ء کے ابتدائی پانچ ماہ میں تجارتی خسارے کی صورت میں ایک سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، تجارتی خسارے میں 37.17فیصد اضافہ ہوا، جو 15ارب 46کروڑ 90لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس صورت حال نے ملکی معیشت کے لیے نئی مشکلات پیدا کردی ہیں، خصوصاً برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی صورت میں۔ تجارتی خسارے میں اضافے کے کئی عوامل ہیں۔ سب سے اہم وجہ درآمدات کا بے تحاشا بڑھنا ہے۔ جولائی سے نومبر 2025تک پاکستان کی درآمدات 13.26 فیصد بڑھ کر 28 ارب31 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کے برعکس، برآمدات میں کمی آرہی ہے۔ جولائی سے نومبر 2025ء میں برآمدات 6.39 فیصد کم ہو کر 12 ارب 84 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہیں۔ نومبر میں برآمدات میں 15.35 فیصد کی کمی آئی، جو معیشت کے لیے تشویشناک علامت ہے۔یہ دونوں رجحانات، یعنی درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی، ملک کی اقتصادی پوزیشن کو کمزور کر رہے ہیں۔ درآمدات میں اضافے کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اپنے تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید غیر ملکی قرضوں یا زرمبادلہ کے ذخائر پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، برآمدات کے فروغ کے لیے حکومت کو فعال حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ پاکستانی مصنوعات کی عالمی معیار کو بہتر بنا کر اور ان کی مارکیٹنگ پر زور دے کر عالمی منڈیوں میں ان کی طلب بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت کو مقامی صنعتوں کو ترقی دینے کی کوششیں تیز کرنی ہوںگی تاکہ پاکستان اپنی ضرورت کی اشیاء خود پیدا کرسکے اور درآمدات پر انحصار کم ہو۔ دوسری جانب، درآمدات کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو غیر ضروری اشیاء کی درآمدات پر پابندی لگانے اور مقامی پیداوار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات تجارتی خسارے کو کم کرنے اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت عالمی سطح پر درپیش چیلنجز سے بھی متاثر ہورہی ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور عالمی مارکیٹ کی سست روی نے پاکستان کی درآمدات کو متاثر کیا ہے۔ داخلی طور پر، سیاسی عدم استحکام اور توانائی کے بحران جیسے مسائل نے معیشت کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ رواں مالی سال 2025-26ء کے ابتدائی پانچ ماہ میں تجارتی خسارے میں اضافے نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ برآمدات کے فروغ اور درآمدات کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کا فوری آغاز ضروری ہے۔ مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر اور عالمی سطح پر اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرکے پاکستان تجارتی خسارے پر قابو پاسکتا اور اپنی معیشت کو مستحکم کرسکتا ہے۔







