اوشو۔۔

اوشو۔۔
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
اوشو۔۔ کون تھا ؟ اس کا اصل نام رجنیش چندر موہن جین تھا ، وہ 11دسمبر 1931ء کو کچیواڑ، مدھیہ پردیش، بھارت میں پیدا ہوا۔ اوشو نو بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ بچپن میں غیر معمولی تجسس اور تنہائی پسندی کے باعث خاندان میں ’’ راجولی بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ وہ کم عمری میں ہی مذہب، روحانیت اور موت و زندگی کے سوالوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اوشو نے سائیکالوجی اور فلسفے میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ساگر یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹرز کیا اور بعد ازاں جاب پور یونیورسٹی میں لیکچرار بنے۔ یونیورسٹی دور ہی میں ان کی تقاریر نے انہیں غیر معمولی شہرت اور تنازعات کا مرکز بنا دیا۔ وہ روایتی مذہب، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات پر سخت تنقید کرتے تھے اور آزاد سوچ کی دعوت دیتے تھے۔ اوشو نے 1960ء کی دہائی میں ملک بھر میں لیکچرز دینا شروع کیے۔۔ انسان کی نفسیاتی آزادی ، جنسی پابندیوں سے نجات ، مذہبی قیود کی نفی ، آزاد شعور کا تصور، ان کے موضوعات میں شامل تھے اور اسی دور میں انہوں نے مراقبے کے نئے طریقے متعارف کرائے، یہ طریقے روایتی سست مراقبے کی بجائے جسمانی اظہار، چیخ، ہنسی، رونا اور تیزی سے سانس لینے پر زور دیتے تھے۔ 1974ء میں انہوں نے پُونا ( بھارت) میں ایک آشرم قائم کیا۔ یہ مقام جلد ہی دنیا بھر سے آنے والے روحانی متلاشیوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں مراقبہ، جسمانی تھراپی، جدید نفسیات، اور اوشو کے لیکچرز کا ایک منفرد امتزاج پیش کیا جاتا تھا۔ اوشو نے اسی دور میں جنسی آزادی اور انسانی خواہشات کے بارے میں کھل کر گفتگو کی، جس کی وجہ سے وہ مغرب میں بے حد مقبول اور مشرق میں متنازع ہوئے۔ 1981ء میں اوشو امریکہ گئے اور اوریگون میں ایک بڑا کمیون (Rajneeshpuram)قائم کیا۔ یہ کمیون چند سال میں ایک شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ مگر مقامی حکومت سے تنازع، امیگریشن کے مسائل، بائیو ٹیررزم کے الزامات ( ان کے پیروکاروں پر)، اور سیاسی کشیدگی کی وجہ سے کمیون ٹوٹ گیا۔ اوشو کو گرفتار کیا گیا، مگر صحت کی خرابی کے باعث انہیں ملک چھوڑنے کی مشروط اجازت دی گئی۔ اوشو 1985ء میں بھارت واپس آئے اور دوبارہ پونا میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے باقی سال لیکچرز، کتابوں، مراقبے کی نئی تکنیکوں ، اور خاموش ریٹریٹس میں گزارے۔ 1989ء میں انہوں نے اپنا نام ’’ اوشو‘‘ رکھ لیا۔ 19جنوری 1990ء کو 58سال کی عمر میں مر گیا۔ آج پونا آشرم دنیا کے سب سے بڑے مراقبہ مراکز میں سے ایک ہے۔
اوشو بارے سات سو سے بھی زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جو حقیقت میں اُن کی تقریروں (discourses)کے ٹرانسکرپٹ ہیں، یعنی اوشو نے خود خط یا کتابی شکل میں نہ لکھی بلکہ تقریریں تھیں جنہیں بعد میں شائع کیا گیا۔ کچھ ذرائع بتاتے ہیں کہ اوشو نے خود دو ذاتی کتابیں لکھیں، A Cup of Teaاور Seeds of Wisdom، جو اُن کی ذاتی ڈائریاں تھیں۔
ان کے بنیادی افکار یہ تھے کہ انسان خواہشات کا دشمن نہیں، مگر خواہش کا غلام بھی نہیں ہونا چاہیے۔ آزادی سب سے بڑا سچ ہے۔ مذہب، خوف یا روایات نہیں، بلکہ تجربہ اصل راستہ ہے۔ زندگی لمحہ موجود میں ہے۔ دبائو سے خواہشیں ختم نہیں ہوتیں، بڑھتی ہیں۔ مراقبہ زندگی کا مرکز ہے، مذہب کا نہیں۔
اوشو کہتے ہیں کہ۔ جنسی توانائی غلط نہیں، یہ وہی ایندھن ہے جو انسان کو شعور کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر اسے دبایا نہ جائے بلکہ تبدیل کیا جائے۔۔ ترکِ خواہش سکون نہیں۔ بلکہ خواہش کو سمجھنا سکون ہے۔۔ اوشو کے مطابق ہر مسئلے کی جڑ ’’ غفلت‘‘ ہے۔ حل ’’ شعور‘‘ ہے، یعنی اپنے عمل، جذبات اور خیالات کو دیکھنے کی صلاحیت۔ اوشو کے نزدیک مکمل انسان وہ ہے جو اکیلے رہنے میں بھی مکمل ہو۔ خوف کی بجائے خطرہ مول لینے کا جذبہ یہی زندگی ہے۔ اوشو بتاتے ہیں کہ محفوظ زندگی ’’ زندہ‘‘ نہیں بلکہ ’’ مردہ‘‘ ہوتی ہے۔ سماج کی تقلید سے نکل کر خود بننے کا فلسفہ۔ انسان کی اصل گھٹن معاشرتی سانچوں اور ڈر سے پیدا ہوتی ہے۔ نرمی کی طاقت، بے عملی کی حکمت، بہائو جیسے جینا، انا کو تحلیل کرنا۔ تائو مت کے بنیادی تین اصول، سادگی۔ نرمی۔ اور effortlessnessاوشو بتاتے ہیں کہ طاقت نرمی میں ہے۔ روشنی اچانک آتی ہے۔ ۔ ایگو ختم ہونے سے ہی امن پیدا ہوتا ہے۔ اوشو بتاتے ہیں کہ ’’ میں‘‘ کا تصور ٹوٹ جائے تو دکھ ختم ہو جاتا ہے۔ محبت وہ دروازہ ہے جو عقل سے نہیں کھلتا بلکہ دل سے کھلتا ہے۔ روحانی سائیکالوجی کے مطابق انسان کے اندر تین وجود ہیں۔ جسم، ذہن اور شعور۔تخلیقی قوت کوئی فنکارانہ صلاحیت نہیں بلکہ ’’ زندگی کو مکمل طور پر جینے‘‘ کا نام ہے۔ سچا تعلق وہ ہے جس میں انسان ماسک اتار دے۔۔ قربت اعتماد سے پیدا ہوتی ہے، ضرورت سے نہیں۔ اوشو کے مطابق سمجھ سوچ سے نہیں، مشاہدے سے پیدا ہوتی ہے۔۔ اندرونی کیمیا، انسان کی منفی توانائی کو مثبت قوت میں تبدیل کرنے کا فن۔ اندرونی آزادی کے بغیر بیرونی انقلاب ممکن نہیں۔۔ خوشی کوئی بیرونی چیز نہیں، یہ اندر سے اُبھرتی ہے جب انسان اپنے خلاف جنگ بند کر دے۔ اوشو زندگی کو ہلکے، کھیل جیسے انداز میں جینے کی دعوت دیتا ہے۔۔ مرد کو ’’ غلبہ‘‘ نہیں، ’’ سمجھ‘‘ کی ضرورت ہے۔۔ اندرونِ انسان کا سفر ایک ایسی وادی ہے جہاں کوئی راستہ نہیں، صرف مشاہدہ ہے۔۔ انسان حقیقت کو منطقی دلائل سے نہیں بلکہ براہ راست تجربے سے سمجھتا ہے۔ وہ ذہن کو خاموش کرنے اور شعور کو روشن کرنے کی تکنیک دیتا ہے۔۔ موت سے خوف کیسے دور ہوتا ہے؟ اوشو کے مطابق موت بھی زندگی کی طرح ایک جشن ہے اگر اسے شعور سے دیکھا جائے۔۔ سچ کا راستہ تلوار کی دھار کی طرح باریک ہے۔۔ آزادی اور ذمہ داری دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔۔ اوشو بتاتے ہیں کہ بدھ’’ اخلاقی استاد‘‘ نہیں بلکہ’’ نفسیاتی ماہر‘‘ تھے۔۔ روحانی انسان ہمیشہ بغاوت کرتا ہے، لیکن بیرونی نہیں، اندرونی انقلاب کے ذریعے۔۔ ذہن سے باہر نکل کر ’’ نو مائنڈ‘‘ کی حالت تک پہنچنے کا راستہ۔ محبت، مراقبہ، اور شعوری ترقی پر نرم مگر گہری گفتگو۔ اوشو انسان کی فطری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔۔ ذہن کہیں بھی کھڑا ہو، حقیقت موجودہ لمحے میں ہے۔۔ حقیقی طاقت نرمی اور خاموشی میں ہے۔۔ استاد وہ نہیں جو سکھائے, بلکہ وہ ہے جو بیدار کرے۔۔ زندگی کو چھوٹے تجربات کے ذریعے سمجھنے کا فن۔ خوراک، سانس، خوشبو، رنگ، لمس ، جسم کے ذریعے روحانی تجربہ کی رہنمائی ہے۔۔ یہ سیکھانا نہیں، ’’ تجربہ منتقل کرنا‘‘ ہے۔۔ جب انسان خاموش ہوتا ہے تو وجود کی موسیقی سنائی دیتی ہے۔۔ موت و زندگی، دن و رات، اچھا و برا ، یہ سب ایک ہی تال کے دو سرے ہیں۔۔ روحانیت میں سب سے اہم چیز ’’ توازن‘‘ ہے۔۔ خود کو قبول کرو، بس، یہی آزادی ہے۔۔۔ حکمت دلیل سے نہیں، تجربے سے آتی ہے۔۔ رہنمائی باہر سے نہیں، اپنے باطن سے اٹھتی ہے۔۔ ہر چیز عارضی ہے، اس لئے دل کو خالی، نرم اور لچکدار رکھو۔۔ مراقبہ صرف بیٹھنے کا نام نہیں، چلنے، کھانے، بولنے اور خاموش رہنے میں بھی ہے۔۔ دل کو خواہشوں سے خالی کرو، خود بخود روشنی اتری گی۔۔ اوشو کہتے ہیں۔ ’’ بڑی سچائیاں ہمیشہ چھوٹے جملوں میں چھپی ہوتی ہیں‘‘۔۔ جب دل خاموش ہوتا ہے تو حقیقت پھوٹ کر سامنے آتی ہے۔۔ گھبراہٹ، خوف، حسد، محبت، تعلقات، اکیلا پن اور کامیابی پر بات کرتے ہیں۔۔ سمجھاتے ہیں کہ تبدیلی خطرناک ضرور ہے، لیکن اسی میں زندگی ہے۔۔ اوشو کہتے ہیں کہ جو موت کو سمجھ لیتا ہے وہ زندگی کو پوری شدت سے جیتا ہے۔۔ بیداری کسی منزل کا نام نہیں، ہر لمحے میں جاگ جانے کا نام ہے۔۔ جب انسان مکمل طور پر ’’ صفر‘‘ ہو جاتا ہے تو پہلی بار خود کو دیکھتا ہے۔۔ ’’ رکاوٹیں حقیقت نہیں۔ بس احساسات ہیں‘‘۔۔۔ انقلاب اندر سے شروع ہوتا ہے۔ خیالات بدلیں تو دنیا خود بدل جاتی ہے۔۔ محبت وہاں پھولتی ہے جہاں کوئی ملکیت نہ ہو۔۔ انسان کے اندر کا تخلیقی لاوا کیسے بہتا ہے ؟ اصل تخلیق تب ہوتی ہے جب ذہن خاموش اور دل کھلا ہو۔ خطرہ زندگی کا حصہ ہے، جو خطرے کو گلے لگا لے، وہی جیتا ہے۔۔ خوشی کوئی کیفیت نہیں ، ایک ’’ اندر سے اٹھنے والی حالت‘‘ ہے جو بیرونی حالات سے آزاد ہوتی ہے۔۔ ماضی کے سانچوں میں سوچنا ذہانت نہیں، صرف عادت ہے۔۔ آگاہی سب سے بڑی طاقت ہے۔۔ انسان کے اندر موجود روشنی کو پہچاننے اور اس تک پہنچنے کا راستہ۔ تم اندھیرے میں نہیں، بس آنکھ بند ہے۔۔ ذہن کو قابو پانے سے شعور کھلتا ہے، ورنہ یہ انسان کی قید ہے۔۔ دل کی زبان سننا سیکھنا الفاظ نہیں، احساسات ہیں ’’ دل کبھی جھوٹ نہیں بولتا‘‘۔ انسانی تعلقات اور رویوں سے بالا تر ہوکر موجودہ لمحے میں جینا اور سادگی اختیار کرنا سب سے بڑا سبق ہے۔ تخلیقیت کا آغاز تب ہوتا ہے جب انسان ’’ خاموش ہو جائے ‘‘۔ شعور اور آگاہی سب سے بڑی طاقت ہے۔۔ انسان کی توانائی کو اگر صحیح سمت دی جائے تو یہ حیوانی سطح سے اوپر اٹھ کر نور بن جاتی ہے۔۔ ہر انسان کے اندر ایک شہزادہ سو رہا ہے۔ صرف اسے جگانے کی ضرورت ہے۔۔ اوشو انسان کو دنیا سے نہیں، خود سے ملنے کی دعوت دیتے ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ کائنات کے سب راز ’’ سکون‘‘ میں چھپے ہیں۔۔ اوشو شعور کو ’’ ہیرا‘‘ کہتے ہیں۔۔ فطرت کی زبان، درخت، پتھر، خاموشی، آسمان اور ہوا سب سکھاتے ہیں۔۔ ’’ آسمانی بادشاہی دور نہیں، تمہارے اندر ہے، بس دیکھنے کی آنکھ کھولو‘‘ ۔۔ موت کے بارے وضاحت کرتے ہیں کہ موت ایک ’’ اختتام‘‘ نہیں۔ایک تبدیلی ہے۔۔ خدا ہمیشہ بلاتا ہے۔ بس انسان سنتا کم ہے۔





