3سالہ ابراہیم مین ہول کی نظر

3سالہ ابراہیم مین ہول کی نظر
تحریر: سید ہ سونیا منور
گزشتہ رات کراچی میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ، جس میں شاہ فیصل کالونی کا 3 سالہ معصوم بچہ ابراہیم نیپا چورنگی کے قریب کھلے مین ہول میں گرگیا، شہر کی انتظامی صورتحال پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے یہ حادثہ صرف ایک خاندان کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا المیہ ہے، جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شہری تحفظ کی ضمانت آخر کس کی ذمہ داری ہے؟۔ کیا کراچی کے شہری ڈمپرز کے نیچے کچلے جانے اور مین ہول میں گر کے جان دینے کے لئے ہیں ؟۔ یہ سانحہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ شہر بھر میں کھلے مین ہولز ایک عرصے سے موت کے کنویں بنے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی مدد آپ کے تحت رات سے ریسکیو آپریشن کروا رہے ہیں۔ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ متعدد بار شہریوں کی شکایات، میڈیا کی نشاندہی اور مختلف حادثات کے باوجود متعلقہ ادارے ان خطرناک مقامات کو بند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
3سالہ ابراہیم کی جان کے مین ہول میں گرنے کا واقعہ اسی انتظامی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ کھلے مین ہولز کسی بھی شہر میں ناقابلِ قبول ہوتے ہیں، مگر کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں روزانہ لاکھوں لوگ آمد و رفت کرتے ہیں، یہ صورتحال مزید تشویشناک ہے۔ پاکستان کو70فیصد سے زائد ریونیو کما کر دینے والا شہر کراچی لا وارث ہو چکا ہے۔ شہر کی کوئی سڑ ک ایسی نہیں بچی جس پر گاڑی یا موٹر سائیکل چل سکے۔ کوئی گلی، محلہ ایسے نہیں جہاں آپ کو کچرے کے ڈھیر اور کھلے ہوئے گٹر یا مین ہول نظر نہ آئیں۔ کراچی بھر میں کھلے مین ہول بچوں، خواتین اور بزرگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ اس وقت ضروری ہے کے اس بات کا تعین کیا جائے کہ اس غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟۔ واٹر بورڈ، بلدیاتی ادارے یا وہ ٹھیکیدار جو کام کے بعد مین ہولز کو بند کرنا بھول جاتے ہیں۔ جواب دہی کے بغیر یہ سلسلہ کبھی نہیں رک سکتا۔
3سالہ ابراہیم کے والدین کا غم ناقابلِ بیان ہے، مگر اس غفلت پر خاموشی اختیار کرنا مزید جانیں ضائع ہونے کا سبب بنے گا۔ کراچی کے شہری برسوں سے اس مسئلے کی نشاندہی کرتے آ رہے ہیں، مختلف حادثات کے باوجود کھلے مین ہولز کو ترجیحی بنیادوں پر بند نہیں کیا گیا۔ شہریوں کا یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ شہر بھر میں کھلے مین ہولز کی فوری نشاندہی، مرمت اور تحفظ یقینی بنایا جائے، یہ اقدامات صرف ہنگامی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ اس واقعے کے بعد ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے نہ صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہوں، بلکہ عملی اقدامات بھی دکھائیں۔ متاثرہ خاندان کو انصاف دلانا، ذمہ داروں کی معطلی اور مین ہولز کا فی الفور بند کیا جانا ناگزیر ہے۔ شہر میں سیفٹی اسٹینڈرڈز پر سختی سے عملدرآمد کرانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک وارننگ ہے کہ اگر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں مزید زندگیاں ضائع ہو سکتی ہیں۔ شہریوں کی حفاظت ریاست اور انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، جس سے غفلت اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ہم 3سالہ ابراہیم کے اہلِ خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ایک بڑے اصلاحی قدم کا سبب بنے گا۔ کھلے مین ہولز کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ، بہتر نگرانی اور فوری ردعمل جیسے اقدامات ہی کراچی کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف افسوس پر اکتفا نہ کریں، بلکہ عملی تبدیلی کی طرف قدم بڑھائیں۔





