مستقبل کے معماروں کو انسان دوست ماحول فراہم کیا جائے

مستقبل کے معماروں کو انسان دوست ماحول فراہم کیا جائے
نظر محمد لغاری
پاکستان سمیت دنیا بھر میں گزشتہ دنوں ’’ بچوں کا عالمی دن‘‘ منایا گیا، جس کا مقصد بچوں کے حقوق کے تحفظ، ان کی فلاح و بہبود اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں بہتری لانا ہے۔ یہ دن نہ صرف بچوں کے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی جیسے اہم مسائل کی طرف بھی توجہ مبذول کرتا ہے۔ آج کی نسل کو نہ صرف اپنے حقوق کی آگاہی ضروری ہے، بلکہ انہیں ایک صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، تاکہ آنے والی نسلیں بھی بہتر زندگی گزار سکیں۔ ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں، کیا وہ معصوم بچوں کے لیے صحت بخش ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے عتاب سے ہمارے بچے محفوظ ہیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈا جائے تو تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو انسان دوست ماحول فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی نے ہماری زمین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زمین کی آلودگی، پانی کی آلودگی، ہوا کی آلودگی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ہمارے ماحول کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔ خاص طور پر بچوں کی صحت اور ترقی پر اس کا انتہائی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا بچوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ آلودہ ہوا، پانی اور مٹی بچوں کی صحت کو کئی طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ بچوں کے جسمانی مدافعتی نظام کی طاقت بڑوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے، اس لیے وہ آلودگی سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً: شہر بھر میں فیکٹریوں، گاڑیوں اور دیگر صنعتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی بچوں میں سانس کے امراض، دمہ اور دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ آلودہ ہوا بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ جب پانی آلودہ ہوتا ہے تو یہ بچوں کے لیے کئی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ آلودہ پانی سے ہیضہ، اسہال، ملیریا اور دیگر امراض پھیلتے ہیں، جو بچوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کرتے ہیں۔ مٹی کی آلودگی سے زہریلے مواد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو بچوں کے لیے زہر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ آلودگی بچوں میں جلد کی بیماریوں، آنکھوں کی تکالیف اور حتیٰ کہ کینسر تک کا باعث بن سکتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے قدرتی وسائل میں کیمیائی فضلہ شامل ہورہا ہے، جس کا اثر بچوں کے اندرونی اعضاء پر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر ان کے جگر، گردے اور دل پر۔
آنے والی نسلوں کے لیے بہتر ماحول کی ضرورت اس لیے ہے کہ اگر ہم نے آج اس ماحول کی حفاظت نہ کی تو کل کے بچے وہ آلودگی کا سامنا کریں گے جس کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک صاف ستھرا اور محفوظ ماحول فراہم کریں تاکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا اثر صرف صحت تک محدود نہیں، بلکہ اس کا معاشرتی اور اقتصادی اثر بھی بچوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ اگر ماحول آلودہ ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر بچوں کی تعلیم اور ترقی پر بھی پڑتا ہے۔ بیمار بچے نہ تو اچھے سے پڑھ سکتی ہیں اور نہ ہی کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں، جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما کے لیے ضروری ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے اور اس میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی تعاون کی ضرورت ہے۔ درخت نہ صرف ہوا کو صاف کرتے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ حکومت کو درختوں کی کٹائی پر پابندی لگانی چاہیے اور درختوں کی تعداد بڑھانے کے لیے قومی سطح پر مہم چلانی چاہیے۔ اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز میں بچوں کو درختوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دی جانی چاہیے اور انہیں درخت لگانے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ پلاسٹک کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہماری زمین، سمندر اور آسمان کو آلودہ کر رہا ہے۔ بچوں کو بچپن سے ہی پلاسٹک کے استعمال کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے اور انہیں پلاسٹک کی جگہ قابل استعمال اور ماحول دوست مواد استعمال کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ توانائی کے غیر ضروری استعمال سے گلوبل وارمنگ کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں توانائی کی بچت کے لیے مختلف اقدامات کرنے چاہئیں، جیسے کہ توانائی کی بچت کرنے والے آلات کا استعمال، بجلی کی فراہمی کے ذرائع میں متبادل توانائی کے ذرائع کا استعمال ( جیسے سورج کی توانائی) اور توانائی کی بچت کے بارے میں عوامی آگاہی کو بڑھاوا دینا چاہیے۔ پانی کی بچت کے لیے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو اسکولوں میں بچوں کو پانی کے اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے پروگرامز شروع کرنے چاہئیں تاکہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے پانی کے ذخائر کو بچا سکیں۔
ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔ اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے، تاکہ بچے اس بات کو سمجھ سکیں کہ ماحولیاتی آلودگی سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے اور صاف ستھرا ماحول کیوں ضروری ہے۔ حکومت کو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سخت قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ فیکٹریوں، گاڑیوں اور دیگر صنعتی یونٹس کو آلودگی کے معیار پر عمل کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے تاکہ ماحول کو آلودہ کرنے والے عوامل کو روکا جاسکے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف جنگ میں عوام کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ ہم سب کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہمارا ہر چھوٹا سا قدم ماحولیاتی بہتری کی طرف بڑھتا ہے۔ ہمیں اپنے گھر، اسکول اور کمیونٹی سطح پر ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ درختوں کی دیکھ بھال کرنا، کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، توانائی کی بچت کرنا اور پانی کو ضائع ہونے سے بچانا سب ہمارے لیے آسان اور موثر اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کر سکتے ہیں۔
بچوں کا عالمی دن ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل پر بھی بات کریں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جس میں ہمارے بچے خوشحال اور صحت مند زندگی گزار سکیں۔ ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت، ادارے اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے روزمرہ کے طرز عمل کو بہتر بنانا ہوگا اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف، محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے۔





