CM RizwanColumn

نوٹیفکیشن اور ”دانش” کے کھلے مین ہولز

جگائے گا کون؟
نوٹیفکیشن اور ”دانش” کے کھلے مین ہولز
تحریر: سی ایم رضوان
کراچی کے علاقے گلشن اقبال نیپا چورنگی پر کھلے مین ہول میں گر کر لاپتہ ہونے والے تین سالہ معصوم بچے ابراہیم کی لاش گزشتہ روز آخر کار تقریباً 15گھنٹے کی طویل اور اذیت ناک تلاش کے بعد مل گئی۔ یاد رہے کہ یہ اذیت صرف ابراہیم کے ورثاء نے برداشت کی ہے ورنہ حکومتی عہدیدار تو پہلے ورثاء کی حال دہائی کے باوجود سوئے رہے اور جب سوشل میڈیا پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور حکومتی نااہلی پر تین حرف بھیجنے لگا تو تب گرم لحافوں میں آرام فرما سندھ حکومت کے ذمہ داروں نے عملہ صفائی کے غریب اہلکاروں کو لاش ڈھونڈنے کے احکامات سختی سے جاری کر دیئے۔ انہی غریبوں کی کوشش سے لاش مل گئی تو حکمرانوں کے ذہن اور سوچ کے مطابق معاملہ ایک طرح سے ختم ہو گیا۔ اب حکومت کے کرنے کا کوئی کام ہی نہیں رہ گیا۔ باقی تنقید اور لعنت ملامت برداشت کر کے حکومتوں پر براجمان رہنا تو ان کا سیاسی اور حکومتی کریڈٹ ہے۔ مزا تو تب تھا کہ اس معصوم بچے کی ہلاکت پر میئر کراچی مستعفی ہو جاتے لیکن گٹروں کے مین ہول تو یہاں ہمیشہ سے کھلے ہی رہتے ہیں۔ البتہ ایک ننھی جان کے یوں سرکاری عیاری کے نذر ہو جائے کے اس دل خراش واقعے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ہے۔ سماجی حلقوں، صحافیوں اور سیاستدانوں نے اس حادثے کو صوبے کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی نااہلی قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ اتوار کی رات اس وقت پیش آیا تھا جب شاہ فیصل کالونی سے تعلق رکھنے والا ایک بدنصیب خاندان شاپنگ کے لئے نیپا کے قریب ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر پہنچا تھا۔ خریداری کے بعد جب والدین باہر نکل رہے تھے تو ابراہیم اچانک ان کا ہاتھ چھڑوا کر بھاگا اور کچھ ہی لمحوں میں گٹر کے کھلے مین ہول میں جا گرا۔ ریسکیو 1122کے مطابق حادثے کے وقت مین ہول پر کوئی ڈھکن موجود نہ تھا جس کی وجہ سے بچہ اندر جا گرا۔ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر فطری طور پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی سیاسی بھڑاس نکالنے کے لئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی نااہلی اور حکومت سندھ کے غیر ذمہ دارانہ طرز حکومت کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی ایلیمنٹ عالمگیر خان کو بھی موقع مل گیا انہوں نے بھی جائے وقوعہ پر پہنچ کر کہا کہ یہ شہر ہے یا موئن جو دڑو؟۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر نے بھی سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ اختیارات کی مالک ہونے کے باوجود گٹروں کے ڈھکن تک فراہم نہیں کر سکتی۔ منعم ظفر نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مرتضٰی وہاب آپ جواب دیں کہ کہاں گیا آپ کا ڈھکن پراجیکٹ۔ انہوں نے شہر میں طویل عرصے سے جاری منصوبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ریڈ لائن منصوبہ شہریوں کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ اہلِ خانہ کے مطابق پورا خاندان رات بھر مدد کے لئے در بدر پھرتا رہا مگر کسی ادارے نے ان کی بات سننا گوارا نہ کی۔ متوفی کے دادا نے الزام لگایا کہ انہوں نے کئی بار متعلقہ محکموں کو فون کیا، سب نے کال ضرور اٹھائی مگر مسئلہ سن کر فون بند کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کا فون بھی بند تھا۔ اگر رات میں ہی تلاش شروع ہو جاتی تو شاید آج ابراہیم زندہ ہوتا۔
اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں رواں سال کھلے مین ہولز اور برساتی نالوں میں گر کر کم از کم 20افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں لیکن شہر میں انتظامی بے حسی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ سوشل میڈیا صارف احسان بخاری نے کہا کہ کراچی کی شہری حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ خبر رساں ادارے’’ دی وائر‘‘ کے سی ای او علی چشتی نے بھی لکھا کہ کراچی اس سے بہتر کا مستحق ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ بچے کے والد نبیل نے صحافیوں سے گفتگو میں دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میری آنکھوں کے سامنے میرا بچہ گٹر میں گرا ہے۔ وہ میری اکلوتی اولاد تھا۔ بہت مشکل وقت ہے۔ جائے وقوعہ پر ماں بھی غم سے نڈھال نظر آئی۔ ایک ویڈیو میں وہ روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ’’ اللہ کے واسطے میرے بچے کو بچا لو‘‘، یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی اور اصولی طور پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔ ایک بھولے بسرے صحافی معید پیرزادہ نے بھی بچے کی والدہ کی آہ و بکا کی ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ پورا ملک ہی مین ہول بن گیا ہے‘‘۔ صحافی اسما شوکت نے کہا کہ’’ یہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا جو اب نہیں رہا، صرف اس لئے کہ کسی نے اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے، یہ غفلت سے کیا گیا قتل ہے۔ اور یہ ہوتا رہے گا کیونکہ کراچی کا نظام بار بار ناکام ہو جاتا ہے‘‘۔ تجزیہ کار فراز درویش نے بھی شہر کی’’ مکمل تباہی‘‘ کو سندھ حکومت کی صفر کارکردگی قرار دیا۔ انہوں نے لکھا’’ پورا کراچی تباہ حالی کا شکار ہے۔ موبائل چھینے جانے کی وارداتیں عام ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گلیوں میں گندا پانی کھڑا ہے، ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں اور بے ہنگم تعمیرات نے شہر کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول نے مطالبہ کیا کہ والدین ذمہ داروں کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کرائیں۔ سماجی رہنما گنیش کمار نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے مدد کی اپیل کرتے ہوءے کہا کہ ’’ مریم نواز سے درخواست کرتے ہیں کہ فوری نوٹس لیں، کراچی ترقی مانگ رہا ہے‘‘۔ دوسری جانب میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے معاملے کو’’ برساتی نالے کا کیس‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ’’ گزشتہ ایک سال میں 88ہزار گٹروں کے ڈھکن لگائے گئے ہیں‘‘۔ میئر کراچی استعفے سے متعلق سوال پر برہم ہو گئے اور کہا کہ کچھ لوگ اس واقعے پر سیاست کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا رہے ہیں اور جہاں بھی انتظامیہ کی کوتاہی ثابت ہوئی، کارروائی ہو گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈھکن نہ ہونے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے لیکن ان سب کی سابقہ کارکردگی گواہ ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں اور کراچی کے مین ہولز کھلے ہی رہیں گے۔
گٹروں کے ڈھکنوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں یکطرفہ، خریدی ہوئی اور غیر منطقی دانش کے مین ہولز کے ڈھکن بھی ہمیشہ غائب ہی رہتے ہیں۔ بے پر کی دانش کے یہ میں ہول بھی جب چاہے کسی بھی اہم، قومی سطح پر حساس اور اصولی طور پر درست اور سیدھے سادھے معاملہ کو لے کر کسی وقت بھی ابل پڑتے ہیں۔ ان کے ابلنے کا عمل ایک بار پھر گزشتہ روز یعنی 27نومبر کو اس وقت شروع ہوا جب جنرل ساحر شمشاد مرزا پاکستان کی افواج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ہوا یہ کہ ان دانش کدوں کو امید یہ تھی کہ وفاقی حکومت اس عہدے کے متبادل کے طور پر چیف آف ڈیفنس فورسز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دے گی جو حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا۔ شور تو پڑنا ہی تھا۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ افواہ پھیلائی گئی کہ چونکہ نواز شریف نہیں چاہتے کہ یہ نوٹیفکیشن جاری ہو، سو اسے روک لیا گیا ہے۔ پھر یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت فوج سے لڑ پڑی ہے۔ پھر یہ کہا گیا کہ فوج میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ پھر متعدد آئینی سقم بھی بتائے گئے اور آئینی ترجیحات اور تقاضے بھی بتائے گئے القصہ دانش کے ان مین ہولز کے ابلنے کا عمل ابھی تک جاری ہے۔ 29نومبر کی تاریخ گزرنے کے بعد چیف آف ڈیفینس فورسز ( سی ڈی ایف) کی تقرری کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حکومتی عمل میں تاخیر کے بعد تو اس کے آئینی مضمرات سے متعلق کئی سوالات کو جنم دے کر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں حالانکہ گزشتہ روز ( پیر کو) قومی اسمبلی میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ’’ نوٹیفیکیشن ہو جائے گا، اس میں میرے یا آپ کے لءے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ وہ ( آرمی چیف) عہدے پر موجود ہیں۔ یہ سرکاری پراسیس ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم ملک میں نہیں تھے، وہ آ جاتے ہیں تو سارا کچھ ہو جائے گا۔ یا ہو سکتا ہے کہ فائل ورک ہو بھی چکا ہو‘‘ ۔ وزیر قانون نے مزید کہا کہ میری یہ وزارت نہیں ہے، یہ وزارت دفاع نے کرنا ہے وزیر اعظم ہائوس سے کوارڈینیٹ کر کے۔
تاہم بعض قانونی ماہرین و تجزیہ کاروں کا یہ ماننا کسی حد تک درست ہے کہ نئے نوٹیفکیشن کے بغیر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت ازخود ختم بھی تصور کی جا سکتی ہے، لیکن یہاں یاد رہے کہ موجودہ آئین ساز اسمبلی نے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بھارت کو ملکی تاریخ کی عظیم ترین شکست دینے پر قومی ہیرو تسلیم کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کا اعزاز دے رکھا ہے اور وہ ان کے لئے کسی بھی ضرورت کے تحت کسی بھی وقت نئی ترمیم اور نئی قانون سازی سامنے لا سکتی ہے، لہٰذا اس میں خدشات اور سوالات کی کوئی منطق ہی سامنے نہیں لائی جا سکتی، اس کے باوجود خواہ مخواہ کی گرد اڑائی جا رہی ہے۔ ان دانش کدوں کو یاد کرنا چاہئے کہ جنرل عاصم منیر سے قبل ایک آرمی چیف ہوا کرتے تھے، جنہوں نے اپنی آرمی چیف شپ کے دور میں بھارت کے خلاف جنگ کے سوال پر جواب دیا تھا کہ ہمارے پاس تو ٹینکوں میں ڈالنے کے لئے تیل نہیں ہے۔ ہم بھارت کے خلاف جنگ کیسے شروع کریں مگر جب عاصم منیر جیسے ببر شیر کے سامنے یہ معاملہ آیا تو اس نے بھارت کو ایسا سبق سکھایا کہ سابقہ غلطیوں کی بناء پر پاتال میں گرا ملک پاکستان آسمان کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ کیا ایسے محسن اور ہیرو کے نوٹیفیکیشن کے اجراء پر دانش کدوں کا ابلنا جائز ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر گز نہیں کیونکہ وفاقی حکومت اور قانون ساز اسمبلی کی ساری کی ساری اکثریت فیلڈ مارشل کے کارنامے کی معترف ہے اور ایسے جرنیل کو ملک کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے مواقع دینے پر تیار اور رضا مند ہے۔
بہرحال نوٹیفکیشن کے اجراء میں محض وزیراعظم کے ملک میں نہ ہونے کی بنا پر تاخیر کے ایک سادہ سے معاملے کو یوں ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرنے والے ’’ دانش‘‘ کے ان کھلے مین ہولز کو بند ہونا چاہئے اور ساتھ ہی کراچی کے اس متوفی بچے ابراہیم کی موت کے ذمہ داروں کا بھی تعین ہونا چاہئے اور ان کو سزا بھی ملنی چاہئے جن کی بدعنوانی اور غفلت کی وجہ سے ایک گھر کا روشن چراغ بجھ گیا۔

جواب دیں

Back to top button