Column

کریک ڈائون

کریک ڈائون
رفیع صحرائی
میں نے دو ماہ پہلے ’’ موٹر سائیکل سوار شکنجے میں‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں ان حالات کی نشان دہی کی تھی جو آج پنجاب کے عوام کو درپیش ہیں۔ تب میری اٹھائی گئی آواز ’’ صدا بصحرا‘‘ ثابت ہوئی تھی۔ سول سوسائٹی، وکلاء برادری، طلباء اور عام لوگوں نے کوئی توجہ ہی نہ دی تھی۔ وکلاء کی تو سمجھ آتی ہے کہ موٹر سائیکل سواروں پر کریک ڈائون کر کے ان کے رزق میں وسعت کا سامان پنجاب حکومت نے مہیا کر دیا ہے مگر اس سخت ترین کریک ڈائون کا شکار عوام بھی دو ماہ تک شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیئے رہے۔
سوشل میڈیا پر کیسے کیسے افسوسناک مناظر گزشتہ دو روز سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کوئی موٹر سائیکل پر مہمانوں کے لیے گھر سے دہی لینے نکلا اور دھر لیا گیا۔ کوئی بچوں کو سکول سے لینے نکلا اور شیرجوانوں کے شکنجے میں آ گیا۔ کوئی بالکل خالی ٹُو وے سڑک پر یوٹرن لیتا ہوا پکڑا گیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہوئی کہ ایک ایک تھانے میں موٹر سائیکل سوار درجنوں ’’ قومی مجرم‘‘ حوالاتوں کے ننگے فرش پر سردی کی رات بغیر گرم کپڑوں کے بیٹھے رہے مگر وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پولیس کی سخت ہدایت تھی کہ کسی کی شخصی ضمانت تھانے میں نہیں لی جائے گی۔ اگلے روز اتوار تھا مگر کچہریاں موٹر سائیکل معمولی خلاف ورزی کرنے والے موٹر سائیکل سواروں سے بھری ہوئی تھیں جو ضمانت حاصل کرنے یا جیل جانے کے لیے پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے تھے۔
میں ذاتی طور پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی ذہانت، خلوص، جذبہ خدمت اور محنت کا معترف ہوں۔ میں ہی کیا ایک زمانہ ان کے اقدامات کی تعریف کر رہا ہے مگر یہاں وہ اپنے مشیروں کے ہاتھوں دھوکہ کھا گئی ہیں۔ یورپین طرز پر ٹریفک قوانین پر سو فیصد عملدرآمد کروانے اور ٹریفک کی محفوظ روانی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ حادثات سے بچا کے لیی ہر ممکن کوششیں یقیناً سراہے جانے کے قابل ہیں مگر زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے کوئی بھی سختی لاگو کرنے کے اپنے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کروانے پر مامور اداروں کے اہل کاران کے اندر اصلاح کی حِس ہوتی ہی نہیں ہے۔ وہ غلطی کو درست کرنے کے عمل سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ انہیں تربیت ہی غلطیاں پکڑنے کی دی جاتی ہے جس میں وہ اکثر حدود سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں پورا پنجاب ایک ہی دن کی کارروائیوں کے نتیجے میں سہم کر رہ گیا ہے۔ ہر کوئی سراسیمہ اور پریشان ہے۔ اچھے کاموں کا کریڈٹ لیتے لیتے وزیرِ اعلیٰ کو ڈس کریڈٹ کرنے کی طرف گامزن کرنے والے مشیروں کے بھی اپنے ہی مفادات ہوں گے۔
ترقیاتی کاموں کی بات کی جائے تو یوں لگتا ہے جیسے لاہور کو ہی پورا پنجاب سمجھ لیا گیا ہے۔ دیہات کو شہروں اور ایک دوسرے سے ملانے والی ہی نہیں شہروں کو دوسرے شہروں سے ملانے والی سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ملک میں ریلوے کا نظام تباہ ہونے سے سڑکوں پر ٹریفک کا لوڈ بہت بڑھا ہے۔ دوسری طرف موٹر سائیکلوں کی بہتات اور مہنگے کرایوں کی وجہ سے چھوٹے شہروں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نے سرکاری الیکٹرک بسوں کی سہولتیں بھی بڑے شہروں تک محدود رکھی ہیں۔ دیہات اور قصبوں کا تو یہ عالم ہے کہ وہاں چلنے والے چنگ چی رکشے ٹوٹی سڑکوں پر اکثر الٹ جاتے ہیں۔ اپنا وقت اور پیسہ بچانے کے لیے غریب لوگ موٹر سائیکل خریدتے ہیں۔ حکومت کی موٹر سائیکلوں کے خلاف موجودہ مہم اس سستی سواری کی حوصلہ شکنی سمجھی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے صوبے سے موٹر سائیکل ختم کرنے کا کوئی منصوبہ زیرِ غور ہے۔
طلبہ حکومت پنجاب کی تازہ مہم جوئی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ میرے ایک دوست کا تعلق شہر سے پانچ کلومیٹر دور ایک گائوں سے ہے۔ وہ خود لاہور میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا ایک سترہ سال کا بیٹا انٹر کا سٹوڈنٹ ہے۔ دو بیٹیاں میٹرک میں پڑھتی ہیں۔ دونوں بہنیں اپنے بھائی کے ساتھ سکول جاتی ہیں۔ اب کریک ڈائون کے بعد تینوں آج سکول اور کالج نہیں گئے۔ گائوں میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں جاتی۔ بیٹا ڈر رہا ہے کہ سترہ سال کا ہونے کی وجہ سے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بن سکتا۔ اگر بہنوں کو لے کر سکول گیا تو بہنوں کو بیچ سڑک میں بے یارو مددگار چھوڑ کر پولیس اسے پکڑ لے گی۔ یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے۔ لاکھوں بچوں کے تعلیمی مستقبل کا معاملہ ہے۔ بلڈ پریشر اور دل کے مریض ہیلمٹ اوڑھنے کے بعد گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں مگر ان کے لیے دو ہی آپشن چھوڑے گئے ہیں۔ ہیلمٹ اوڑھ کر مریں یا پھر حوالات کے ٹھنڈے فرش پر مر جائیں۔ اگر قریبی شہر میں اپنے کسی عزیز کی شادی میں جانا ہو تو اب آپ اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ موٹرسائیکل پر نہیں جا سکتے۔ ٹرپل سواری کے جرم میں آپ کو زنداں میں ڈال دیا جائے گا۔ آپ چاہے 1000روپیہ روز کمانے والے مزدور ہیں آپ کو کرائے پر کار لے کر جانا ہو گا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ تو موجود نہیں۔ اگر باپ دوسرے شہر میں ہے تو بیٹا ایمرجنسی کی صورت میں بھی اپنی والدہ کو لے کر موٹر سائیکل پر ہسپتال نہیں جا پائے گا۔ اسے اپنی ماں کو تکلیف سے تڑپتا ہوا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا ہو گا۔ آٹھ سو روپے کمانے والے مزدور کو اس وجہ سے پانچ ہزار روپے جرمانہ دے کر گھر جانا ہو گا کہ پارکنگ میں کھڑی اس کی موٹر سائیکل سے کسی نے شیشہ ( بیک ویو مرر) اتار لیا ہو گا۔ اگر کسی نے شرارت سے موٹر سائیکل کا اشارہ توڑ دیا تو مستری کے پاس جانے سے پہلے پانچ ہزار جرمانہ جیب میں ڈالنا ہو گا۔
دو ماہ سے اس کریک ڈائون کی تیاری کی جا رہی تھی۔ عوام کے کسی ایک نمائندے نے بھی پنجاب اسمبلی میں اس پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سب ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ موٹر سائیکل ان کی سواری ہے ہی نہیں۔ یہ تو کیڑے مکوڑوں کی طرح پھرتے عوام کی سواری ہے۔ کیڑے مکوڑے پیروں تلے کچلے جانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کے کون سے حقوق ہوتے ہیں جن پر بات کر کے وقت ضائع کیا جائے۔ اب تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکے لگا کر پولیس نے موٹر سائیکل سواروں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ سکولوں میں حاضری معمول سے کم ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو عین ممکن ہے طلبہ اور پولیس باہم دست و گریباں ہونے کے واقعات منظرعام پر آنے لگیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے۔ سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے عوام کو ذبح نہ کیجیے ۔ اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لائیے۔ بنیادی سہولتیں دیئے بغیر شکنجہ کس دینا مناسب نہیں ہے۔ آپ کے صوبے کے عوام پہلے ہی معاشی تنگی کا شکار ہیں۔ انہیں مزید پریشان نہ کیجیے۔ زمینی حقائق دیکھ کر فیصلے کرنا ہی مناسب ہے۔ غریب لوگوں پر رحم کیجیے۔ کریک ڈائون ہیلمٹ نہ پہننے، شہریوں کے لیے ڈرائیونگ لائسنس اور ٹریفک کے اشاروں کی خلاف ورزی تک ہی محدود رکھیے۔ طلبہ خصوصاً میٹرک اور اس سے اپر کلاسز کے طلبہ کا مسئلہ بھی سمجھیے۔ روزانہ پانچ سات کلومیٹر پیدل سکول و کالج میں آنا اور جانا مشکل ہے۔ ملک میں شرح خواندگی پہلے ہی کم ہے۔ اس اقدام سے مزید کم ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button