ColumnImtiaz Ahmad Shad

درست سمت کا انتخاب، ناگزیر

ذرا سوچئے
درست سمت کا انتخاب، ناگزیر
امتیاز احمد شاد
یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل، نوجوان آبادی اور ثقافتی تنوع کے باوجود آج بھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو پاکستان سے بھی زیادہ مشکل حالات سے اٹھ کر آج ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو چکے ہیں، اور یہی مثالیں پاکستان کے لیے امید اور رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ پاکستان آج جس معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال سے گزر رہا ہے وہ کسی بھی صورت ناقابلِ حل نہیں، بشرطیکہ ریاست، ادارے اور عوام ایک مشترکہ سمت میں سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں۔
اگر پاکستان وہ راستہ اختیار کرے جس نے جنوبی کوریا، سنگاپور، چین، ملائیشیا، اور آئرلینڈ جیسے ممالک کو بدل کر رکھ دیا تو پاکستان بھی آئندہ دو دہائیوں میں ترقی یافتہ دنیا کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی کا حقیقی راز تعلیم ہے، کیونکہ کوئی بھی قوم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک اس کی بنیادیں سائنس، ٹیکنالوجی، ریسرچ، منطق، اختراع اور علم پر استوار نہ ہوں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام نہ صرف غیر مساوی ہے بلکہ معیار کے لحاظ سے بھی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ ترقی کی پہلی سیڑھی یہی ہے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم دی جائے، اساتذہ کی تربیت کی جائے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھائی جائے، یونیورسٹیوں میں ریسرچ کو ترجیح دی جائے اور ملک کو ایک علمی اور تحقیقی طاقت بنایا جائے۔
جنوبی کوریا نے 1960ء سے 1980ء کے درمیان تعلیم پر انقلابی سرمایہ کاری کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہ ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور الیکٹرانکس میں دنیا کی رہنما قوم ہے۔ اگر پاکستان اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم، ہنر اور جدید سائنسی تربیت سے مسلح کر دے تو یہی نوجوان پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس کے بعد صنعتی ترقی اور برآمدات وہ ستون ہیں جن کے بغیر پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ صرف درآمدات پر چلنے والا ملک کبھی بھی امیر نہیں بن سکتا، اور پاکستان کا یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ وہ درآمدی اشیا پر زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن برآمدات محدود ہیں۔ ہمیں میک ان پاکستان کو قومی پالیسی کے طور پر اختیار کرنا ہو گا، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو
سستے قرضے دینے ہوں گے، ٹیکس نظام آسان کرنا ہوگا، اور ان شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی جن میں پاکستان عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکتا ہے، جیسے ٹیکسٹائل، آئی ٹی، زرعی مصنوعات، فوڈ پروسیسنگ، سرجیکل آلات، فارماسیوٹیکل، اور کھیلوں کا سامان۔ دنیا کے جدید ماڈلز یہ بتاتے ہیں کہ برآمدات بڑھا کر ہی کوئی ملک خوشحال بنتا ہے، چاہے وہ چین ہو یا ویتنام، ملائیشیا ہو یا تائیوان۔ پاکستان کے پاس نوجوان آبادی کی شکل میں ایک سنہری موقع ہے، کیونکہ جس ملک کے پاس مہارت یافتہ نوجوان ہوں، وہاں بڑی صنعتیں خود بخود آکر سرمایہ کاری کرتی ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ سیاسی استحکام وہ بنیاد ہے جس کے بغیر کسی بھی ملک میں ترقی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ اگر حکومتیں بار بار بدلتی رہیں، پالیسیوں میں ہر چند ماہ بعد تبدیلی آتی رہے، عدالتی اور پارلیمانی نظام غیر یقینی کا شکار ہو، تو سرمایہ کار ملک میں نہیں آتے۔
سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کی ترقی کے پیچھے سب سے بڑا عنصر یہی ہے کہ وہاں پالیسی کے تسلسل، سیاسی نظم و ضبط اور ادارہ جاتی استحکام کو یقینی بنایا گیا۔ پاکستان کو بھی اپنی سیاسی سمت واضح کرنی ہوگی اور طویل المدتی قومی ایجنڈا تشکیل دینا ہوگا جو حکومتیں بدلنے سے متاثر نہ ہو۔ اسی کے ساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ، شفاف احتساب اور مضبوط ادارے وہ طاقت ہیں جو کسی بھی ملک میں ترقی کی رفتار کو تیز کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو ممالک کرپشن کم کرنے میں کامیاب ہوئے، وہاں ترقی نے تیز ترین رفتار پکڑی، جیسے سنگاپور اور جنوبی کوریا نے کیا۔ پاکستان کو بھی جدید طرز پر بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ اور حکومتی اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ملک میں شفافیت بڑھے، رشوت ختم ہو، اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔ اگر پاکستان ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری کرے، آئی ٹی ایکسپورٹ کو فروغ دے، نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دے، سافٹ ویئر انڈسٹری کو آسان قوانین مہیا کرے، اور ای گورننس سسٹم نافذ کرے تو پاکستان نہ صرف بلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے بلکہ دنیا کی ڈیجیٹل مارکیٹ میں نمایاں مقام بھی حاصل کر سکتا ہے۔
اسی طرح زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن بدقسمتی سے آج بھی یہ شعبہ پرانی طرز کے طریقوں سے چل رہا ہے، جس کی وجہ سے پیداوار کم ہے اور نقصان زیادہ۔ اگر پاکستان جدید زرعی ٹیکنالوجی، بیجوں کی بہتری، پانی کے موثر استعمال، مشینی کاشت اور فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دے تو پاکستان اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کی برآمدات بھی بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس پہاڑ، دریا، صحرا، ساحل، تاریخی مقامات، مذہبی ورثہ اور دنیا کی بہترین قدرتی خوبصورتی موجود ہے، مگر سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی بہت کم ہے۔ اگر پاکستان سیکیورٹی بہتر کرے، انفراسٹرکچر مضبوط کرے، سیاحتی سہولیات بنائے اور دنیا میں مثبت امیج اجاگر کرے تو پاکستان ہر سال اربوں ڈالر صرف سیاحت سے کما سکتا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے بحران کا حل بھی ترقی کی راہ میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ سستا اور مسلسل بجلی کا نظام ہی صنعتوں، روزگار اور برآمدات کو مضبوط بناتا ہے۔ پاکستان کو ہائیڈرو پاور، سولر، ونڈ اور تھرمل انرجی کے متوازن نظام کی طرف جانا ہوگا تاکہ بجلی کی قیمت کم ہو اور صنعت کو سستی توانائی فراہم ہو۔
لیکن ان سب اقدامات کی اصل بنیاد قانون کی حکمرانی ہے۔ یعنی ایسا نظام جہاں ہر شہری قانون کے سامنے برابر ہو، انصاف سب کے لیے یکساں ہو، طاقتور اور کمزور کا فرق ختم ہو، اور عدالتی فیصلے تیز رفتار ہوں۔ یورپ اور جاپان کی کامیابی کا سب سے اہم راز یہی ہے کہ انہوں نے ریاست کو انصاف پر کھڑا کیا۔ جب انصاف مضبوط ہو جاتا ہے تو ملک خود بخود ترقی کی طرف چل پڑتا ہے۔ حقیقت میں، پاکستان کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے پاس کبھی نہیں تھا۔ جغرافیہ، وسائل، آبادی، صلاحیت، تاریخ اور ایک مکمل تہذیبی بنیاد، صرف کمی ایک منظم، مستقل اور بصیرت رکھنے والی قومی قیادت کی ہے جو قوم کو ایک سمت میں متحد کر سکے۔ اگر پاکستان تعلیم، معیشت، ٹیکنالوجی، ادارہ جاتی اصلاحات اور قانون کی حکمرانی پر بھرپور توجہ دے، تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان آئندہ دو دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک کی قطار میں داخل نہ ہو سکے۔ دنیا میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو محنت، نظم و ضبط، دیانت اور علم کو اپنا ہتھیار بناتی ہیں؛ اور وہ قومیں پیچھے رہ جاتی ہیں جو مسائل کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں۔ پاکستان کے پاس اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم آج درست سمت کا انتخاب کر لیں تو آنے والی نسلیں ایک ایسے پاکستان میں زندگی گزاریں گی جو مضبوط، خوشحال، باوقار اور ترقی یافتہ ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button