Column

افغان باشندوں کی واپسی اور سیکیورٹی چیلنجز

اداریہ۔۔۔
افغان باشندوں کی واپسی اور سیکیورٹی چیلنجز
پاکستان کی داخلی سیکیورٹی اور معاشی استحکام کی صورتحال کے پیش نظر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا یہ بیان کہ 11لاکھ غیر قانونی افغان شہریوں کو اپریل تک واپس بھیجا جائے گا، ایک اہم اور متنازعہ معاملہ بن چکا ہے۔ وزیر داخلہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان افغان مہمانوں کی واپسی کسی بھی صورت یقینی بنائی جائے گی، جنہیں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونے کی وجہ سے واپس بھیجا جارہا ہے۔ محسن نقوی کے مطابق، افغانستان سے آئے ہوئے افراد کی موجودگی پاکستان کے لیے نہ صرف سیکیورٹی کے لحاظ سے خطرناک ہے، بلکہ یہ ملک کی معاشی صورتحال پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ اس فیصلے کے تحت تینوں صوبوں میں افغانوں کی واپسی کا عمل تیز کیا جارہا ہے، تاہم خیبر پختونخوا میں اس فیصلے پر عمل درآمد میں مشکلات درپیش ہیں۔ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1979ء میں روسی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد لاکھوں افغان شہری پاکستان کی سرحدوں میں پناہ لینے کے لیے آئے۔ وہ ایک وقت تھا جب افغانوں کو پاکستان میں ایک مہمان کی حیثیت سے خوش آمدید کہا گیا۔ ان افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہو گئی اور انہیں سرکاری طور پر پناہ دی گئی۔ تاہم، افغان طالبان کے اقتدار میں آنے اور اس کے بعد کے تنازعات نے افغان شہریوں کے پاکستان میں موجودگی کے مسائل کو پیچیدہ بنا دیا۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ابھی تک موجود ہے اور ان کی واپسی ایک طویل عرصے سے زیر بحث ہے۔ 2016ء میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNHCR)کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کا آغاز ہوا تھا، لیکن بدقسمتی سے، مختلف سیاسی، سیکیورٹی اور معاشی مسائل کے باعث افغان مہاجرین کی مکمل واپسی ممکن نہ ہو سکی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے حالیہ بیان میں افغان شہریوں کی واپسی کی ضرورت پر زور دیا اور اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام پاکستان کے سیکیورٹی مفادات اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ وزیر داخلہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ افغان مہاجرین کا ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ہونا اور ان کے ساتھ جڑے سیکیورٹی مسائل نے پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرایا ہے، جن میں خودکُش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتیں شامل ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اسلام آباد میں خودکُش حملوں اور ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملوں کے حوالے سے بتایا کہ ان تمام کارروائیوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے فیصلے کی ایک اہم وجہ ملک میں ہونے والے بم دھماکوں اور سیکیورٹی کی خرابی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ بم دھماکے پاکستان کے لیے مزید افورڈ نہیں کیے جاسکتے اور یہ کہ افغان مہاجرین کی واپسی ملک کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل پر زور دیا جارہا ہے، لیکن خیبر پختونخوا میں اس پر عمل درآمد میں مشکلات آ رہی ہیں۔ وزیر داخلہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ خیبر پختونخواحکومت کی طرف سے اس معاملے میں تعاون نہیں کیا جارہا اور وہاں افغانوں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹیں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کے کیمپوں کی موجودگی اور ان کے لیے دی جانے والی پناہ گاہوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ وزیر داخلہ نے خیبر پختونخوا حکومت کو اس معاملے میں وفاقی حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی اور کہا کہ اس وقت ملک کی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ افغانوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر داخلہ نے سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی فیک نیوز پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر 90فیصد خبریں جھوٹی اور من گھڑت ہیں اور اس طرح کی اطلاعات کو پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ بات اہم ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور افواہیں عوامی سطح پر غیر معمولی اضطراب اور تشویش کا باعث بن سکتی ہیں۔ وزیر داخلہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس قسم کی فیک نیوز کو پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے تاکہ معاشرتی امن و امان برقرار رہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کا ہدف ہے کہ تمام افغان شہریوں کو عزت کے ساتھ واپس بھیجا جائے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو سختی سے واپس بھیجا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی افغان کو دوبارہ پاکستان میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر کوئی افغان دوبارہ آتا ہے تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کے کیمپ ختم کیے جارہے ہیں اور ایس ایچ اوز کو یہ ذمے داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں افغانوں کو تلاش کریں اور انہیں واپس بھیجیں۔افغان مہاجرین کی واپسی ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے جس کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان کے سیکیورٹی مفادات اور معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے، اگرچہ وزیر داخلہ محسن نقوی کا موقف سیکیورٹی کی ضرورت اور غیر قانونی امیگریشن کے خاتمے کے حوالے سے مضبوط ہے، مگر اس فیصلے کا نفاذ ایک مشکل عمل ہوگا۔ اس میں صوبوں کا تعاون، عوامی ردعمل اور افغان مہاجرین کے حقوق کا احترام بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس تمام صورتحال میں حکومت کو ایک توازن پیدا کرنا ہوگا تاکہ جہاں سیکیورٹی اور معیشت کی حفاظت کی جا سکے، وہاں انسانی حقوق اور مہاجرین کے مسائل بھی نظرانداز نہ ہوں۔
شذرہ۔۔۔۔
منشیات کیخلاف جنگ لازمی جیتنا ہوگی
پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ اور استعمال کا مسئلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ کراچی میں گزشتہ پولیس کی جانب سے 508 کلو منشیات کی برآمدگی اور 14 ملزمان کی گرفتاری ایک اور سنگین حقیقت کو اجاگر کرتی ہے، جو پورے ملک کے لیے ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ کارروائیاں صرف کراچی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ بن چکا، جو پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، خاص طور پر افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے، منشیات کی اسمگلنگ کے لیے حساس مقام ہے۔ افغانستان دنیا کا سب سے بڑا افیون اور ہیروئن پیدا کرنے والا ملک ہے اور ان منشیات کو پاکستان کے ذریعے عالمی مارکیٹ تک پہنچایا جاتا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر منشیات کی اسمگلنگ کے مرکزی راستے ہیں اور یہاں کے نوجوانوں میں منشیات کا استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ حال ہی میں کراچی پولیس کی کارروائی میں 468 کلو چرس اور 40 کلو آئس جیسے مہلک منشیات برآمد ہوئیں اور 14 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جن کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ ان ملزمان کا ماضی بھی منشیات کے مقدمات سے جڑا ہوا تھا، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ منشیات کا نیٹ ورک پہلے سے ہی مضبوط ہے اور اس کا خاتمہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ سندھ حکومت نے منشیات کے خلاف کارروائیاں مزید موثر بنانے کے لیے نارکوٹکس فورس کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ یہ فورس منشیات کی اسمگلنگ اور اس کے کاروبار کو توڑنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس اور دیگر اداروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے تاکہ منشیات کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ کراچی میں منشیات کے کاروبار کی جڑیں صرف شہر تک محدود نہیں، بلکہ یہ قبیح دھندا پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی منشیات کا کاروبار بڑھ رہا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو قومی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ منشیات کا استعمال پاکستان میں نوجوانوں کے لیے بڑھتا ہوا بحران ہے۔ اگرچہ پولیس کارروائیاں اور خصوصی فورسز کا قیام ایک اہم قدم ہے، لیکن اس مسئلے کا حل صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں تک محدود نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ہمیں معاشرتی سطح پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں منشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا، والدین کی نگرانی میں اضافہ کرنا اور کمیونٹی سطح پر اس مسئلے پر بات چیت شروع کرنا بہت ضروری ہے۔ کراچی کی حالیہ کارروائیاں ایک اہم قدم ہیں، لیکن یہ صرف ایک علامت ہیں کہ منشیات کا کاروبار پورے پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت، پولیس اور معاشرتی اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ منشیات کی روک تھام کے لیے عوامی سطح پر آگاہی، سخت قوانین اور بہتر نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائیوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو اس خطرناک مسئلے سے نجات دلائی جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button