Column

لاہور کی جان لیوا سموگ، ایک خاموش قاتل جس کا وار ہر سانس پر پڑ رہا ہے۔

لاہور کی جان لیوا سموگ، ایک خاموش قاتل جس کا وار ہر سانس پر پڑ رہا ہے۔
حمزہ شاہد
مستقل کالم عنوان: عینی شاہد
جب سردیوں کی صبحوں میں لاہور کی سڑکیں دھند کے مستقل پردے تلے چھپ جاتی ہیں تو یہ محض نظر کا دھندلا پن نہیں رہتا بلکہ یہ صحت، معیشت اور سماجی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والا بحران بن چکا ہے جو شہری زندگی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں سموگ کے شدید ہونے کے پیچھے فضائی آلودگی، زرعی فضلہ، اینٹ کی بھٹیاں، انڈسٹریز اور ٹرانسپورٹیشن کے دھوئیں جیسی وجوہات شامل ہیں۔
سموگ کے ذرات خاص طور پر PM2.5جیسے باریک ذرات پھیپھڑوں کی گہرائی تک داخل ہو کر سانس کے امراض، دل کے مسائل، نمونیا، دمہ اور آنکھوں کی جلن جیسے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس موسم میں اسپتالوں میں گلے کی خرابی، سانس کے انفیکشن اور دمے کے مریضوں کی تعداد معمول سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اس سال بھی مریضوں کی آمد میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
آلودگی کی صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لاہور عالمی آلودگی انڈیکس میں روزانہ کی بنیاد پر پہلے نمبر پر نظر آتا ہے۔ بعض اوقات نئی دہلی سرفہرست ہو جاتا ہے اور کبھی لاہور، لیکن مجموعی سالانہ اوسط دیکھی جائے تو لاہور دنیا کے پانچویں، فیصل آباد 12ویں اور پشاور 34ویں آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔
دنیا کے 50آلودہ ترین شہروں میں سے 42انڈیا میں اور تین پاکستان میں واقع ہیں۔ گویا پوری دنیا میں آلودگی میں نمبر ون یہی خطہ ہے، جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
اگر زمینی حقیقت کی بات کی جائے تو لاہور کی سڑکوں پر ہر روز بے شمار گاڑیاں، موٹرسائیکلیں، ٹریکٹر اور ٹرالیاں کالا دھواں اگلتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ دھواں اگر کسی کے سانس یا گلے تک پہنچ جائے تو وہ کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محکمہ پنجاب ماحولیاتی پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ ان گاڑیوں کے خلاف مستقل کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ اگرچہ انسدادِ سموگ مہم کے دوران کئی ایف آئی آرز درج ہوئیں، جرمانے ہوئے اور کچھ گاڑیاں بند بھی کی گئیں، مگر صورتحال پھر بھی جوں کی توں ہی کیونکہ بڑے پیمانے پر یہ دھواں اگلنے والی ٹرانسپورٹ اب بھی سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہی ہے۔
اگر سخت قوانین لاگو کیے جائے تو ماحولیاتی تبدیلی میں کافی فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اینٹی سموگ مشینز چلانے سے ختم نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی اسکولز، یونیورسٹیز کے اوقات تبدیل کرنے سے۔ بلکہ اس کے لیے ایک جامع اور مربوط نظام نافذ کرنا ہوگا جس سے اس کی روک تھام کی جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی 60فیصد آبادی ایسی جگہوں پر رہائش پذیر ہے، جہاں شدید آلودگی ہے اور سال میں کم از کم سات بار اسے زہریلی ترین فضا میں سانس لینا پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ اموات میں سے 200اموات کی وجہ فضائی آلودگی بنتی ہے۔ ہر سال 22000بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں اور چار کروڑ افراد کو ناک کا انفیکشن ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہر سال 28ہزار لوگ آلودگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اڑھائی لاکھ افراد ہر سال آلودگی سے پھیلنے والی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ آج کل ہر دوسرا فرد گلے، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کی شکایت کر رہا ہے۔ مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ موٹر ویز بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ دفاتر، فیکٹریوں اور سکولوں میں حاضریاں محدود ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔ سرکاری اور نجی ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے. آلودگی کے باعث ملک کے صنعتی، سیاحتی اور زراعت کے شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان کو ہر سال فضائی آلودگی اور سموگ سے 47ارب ڈالر اور اس سے زائد کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد ایسے بچے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے اور وہ باقاعدگی سے زہریلی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں، جبکہ صرف پنجاب میں 2024ء کی سموگ نے چند ہی ہفتوں میں 18لاکھ افراد کو اسپتالوں تک پہنچا دیا تھا۔
پاکستان کا فضائی بحران راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ یہ دہائیوں کی غفلت اور وقتی طرزِ حکمرانی کا نتیجہ ہے۔ 2000ء سے 2024 ء تک ملک میں ایک کے بعد ایک پالیسی بنائی گئی۔ نیشنل انوائرمنٹل پالیسی (2005)، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی (2012)، اور نیشنل کلین ایئر پالیسی (2023)لیکن ان میں سے کوئی بھی عملی اقدامات میں تبدیل نہ ہو سکی۔
دنیا کی تاریخ میں سموگ کوئی پہلی بار نہیں آیا۔ سموگ کا لفظ پہلی بار دنیا میں 1905ء میں اس وقت استعمال ہوا جب برطانیہ کے بہت سے شہر اس کی لپیٹ میں آ گئے۔
برطانیہ کے دارالحکومت، لندن کی فضا میں بھی ایک سو سال قبل تک سموگ کا راج تھا۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا جب لوگ کوئلہ جلا کر گھر گرم کرتے اور شہر میں موجود کارخانوں میں سے مختلف کیمیکل فضا میں چھوڑے جاتے 1952ء میں ’’ دی گریٹ سموگ آف لندن‘‘ نے جنم لیا۔ تب چار روز تک حدِ نگاہ اتنی کم ہو گئی تھی کہ صرف چند فٹ تک ہی واضح دکھائی دیتا۔ اس دوران 10ہزار افراد ہلاک بھی ہوگئے۔ کہا جاتا ہے، سموگ نے زندگی کو ایسے مفلوج کر دیا کہ وہ گھروں اور تہہ خانوں میں بھی داخل ہو گئی۔
اس کے بعد حکومت اور عوام ، دونوں ہوش میں آئے اور انہوں نے ایسے اقدامات اٹھائے جن سے سموگ، دھوئیں اور فضائی آلودگی کے زہریلے بادل نہ صرف چھٹ گئے بلکہ شہر کی خوبصورتی اور رونقیں بھی بحال ہوگئیں ۔ مثال کے طور پر 1956 ء میں پارلیمان نے ’’ کلین ایئر ایکٹ ‘‘ پاس کیا۔ اس کے ذریعے صنعتوں اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں’’ سموک کنٹرول ایریاز‘‘ بنائے گئے جہاں صرف ایسے ایندھن جلائے جاتے جن کا دھواں قدرے کم ہوتا ہے۔ نیز گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ ماحول دوست ایندھن استعمال کرنے لگیں۔
1968ء میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور لندن کے فضائی معیار میں بہتری آنے لگی۔ مزید براں لندن میں ’’ الٹرا لو ایمشن زون‘‘ متعارف کرائے گئے، جن میں زیادہ دھواں پھیلانے والی وہیکلز پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ لندن سٹی ہال کی جانب سے اس پالیسی کے نفاذ کے چھ ماہ بعد کہا گیا کہ فضائی آلودگی میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے۔
26جولائی 1943ء کو امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی سموگ کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید دھند کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ جاپان نے ان پر کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ اس پر قابو پانے کیلئے امریکہ نے 1963ء میں پہلا کلین ایئر ایکٹ منظور کیا۔ 1967ء میں سخت معیارات اور قوانین متعارف کرائے۔
لاہور کی طرح سموگ سے متاثرہ دنیا کے دوسرے شہر اس سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
چین کے بڑے شہروں بیجنگ اور شیان میں سموگ سے نمٹنے کے لیے سموگ فری ٹاور اور ایئر پیوری فائر ٹاور بنائے گئے ہیں تاکہ آلودہ ہوا کو صاف کر کے سموگ اور فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔
شمالی امریکہ کے ملک میکسیکو کے دارالحکومت میکسیکو سٹی میں ایک ہسپتال کی عمارت کے باہر سو گز کی لمبائی میں ایسی ٹائلیں نصب کی گئی ہیں جو ہوا کو صاف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ان ٹائلوں کی تنصیب سے ہسپتال اور اس کے اردگرد کے علاقے میں فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
برطانیہ کے شہر لندن میں 2016ء میں ایئر کوالٹی کی جانچ کے لیے کبوتروں پر پولوشن سنسر نصب کیے گئے جس کے ذریعے ایئر کوالٹی کی براہ راست اپ ڈیٹس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں میں فضائی آلودگی سے متعلق آگاہی پیدا کی گئی۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں فضائی آلودگی میں کمی لانے کے لیے 1200سے زائد غیر معیاری چولہوں کو ختم کر دیا گیا۔
جنوبی کوریا کے شہر سیئول میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے 61ہزار گھریلو اور 480سے زائد ماحول دوست بوائلر متعارف کرائے گئے ہیں۔
بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آڈ ایون سکیم (odd-even scheme)متعارف کرائی گئی، جس کے تحت جن گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبر odd numbersپر ختم ہوتے ہیں انہیں طاق تاریخوں پر اور جن کے جفت نمبر پر ختم ہوتے ہیں انہیں even datesپر چلائے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
لیکن آج یورپ، چین یا امریکہ جیسے صنعتی ممالک کی بجائے دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے اور انڈیا تیسرے نمبر پر ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 70لاکھ لوگ ایسی بیماریوں سے مرتے ہیں، جن کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے۔
فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ پرانی اور خراب گاڑیوں سے جو دھواں نکلتا ہے، اس میں نائٹروجن آکسائیڈز، پی ایم 10اور پی ایم 2.5نامی زہریلے ذرات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں کے چھوڑے ہوئے دھوئیں سے سلفر، اوزون وی او سی، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔
جلائی جانے والی فصلوں کا دھواں اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ پنجاب میں سموگ بڑھنے کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے حکومتِ پنجاب کی درخواست پر فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن نے 2019ء میں ایک رپورٹ مرتب کی تھی، جس کے مطابق پنجاب کی سموگ میں ٹرانسپورٹ کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 43فیصد ہے۔
دوسرے نمبر پر صنعتی شعبہ ہے جس کا حصہ 25فیصد، زراعت کا 20فیصد، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور جنریٹروں سے نکلنے والے دھوئیں کا حصہ 12فیصد ہے۔ اگر صرف لاہور کی سموگ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی 83فیصد ذمہ داری گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی ہے۔ لاہور میں چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد 73لاکھ ہے۔ حالیہ سالوں میں بائیکیا اور آن لائن ڈیلیوری سسٹم کا بڑھتا ہوا استعمال بھی سموگ میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔
ٹو سٹروک موٹر سائیکلوں کا آلودگی میں مجموعی حصہ 69فیصد بنتا ہے۔ کاروں اور جیپوں کا 23فیصد ہے۔ پاکستان میں یورو 2معیار کا پٹرول 1992ء سے استعمال ہو رہا ہے، جس کا حصہ 70فیصد ہے۔
سموگ سے بچے اور حاملہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ بچوں میں سانس، ناک اور گلے کے ساتھ دل کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ طبی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے آپ کو انگزائٹی اور ڈیمنشیا کی بیماری ہو جاتی ہے۔
اس سال پنجاب حکومت نے لاہور اور اطراف میں تعلیمی اداروں کے اوقات میں تبدیلی، کار پولنگ کا نظام متعارف کروانے، مصنوعی بارش، سڑکوں کی دھلائی، کھیتوں میں آگ لگانے والوں پر جرمانے اور بھٹوں کو چلانے کے نئے نئے طریقوں پر کام کیا ہے، لیکن ان اقدامات سے زیادہ فرق محسوس نہیں ہو رہا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب میں سموگ گنز کے استعمال سے فضائی معیار بہتر بنانے کا تجربہ کیا گیا ۔ حکومت پنجاب کے مطابق سموگ گنز کے استعمال سے فضائی آلودگی میں 70فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
حکومتِ پنجاب نے گزشتہ دو سالوں میں سخت اقدامات اٹھائے ہزاروں بھٹیوں کی جانچ، متعدد بندشیں، مانیٹرنگ نیٹ ورک اور Smog Mitigation Action Planکی شروعات کو سراہا جانا چاہیے مگر مسئلہ صرف قانون سازی یا وقتی بندشیں نافذ کرنے کا نہیں، بلکہ مستقل نفاذ، ٹیکنالوجیکل کنورژن، کسانوں کے لیے متبادل اور صوبائی، وفاقی سطح پر مربوط حکمتِ عملی کا ہے۔
ہمیں مغربی ماڈل کو اپنانا ہوگا جس سے ہم اس کی شدت میں کمی لاسکتے ہیں۔
صنعتی فضلہ، دھواں اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر سخت قوانین بنانے ہوں گے۔
فیکٹریوں میں فلٹرز اور بہتر ٹیکنالوجیز استعمال کی جائے تاکہ دھوئیں کا اخراج کم سے کم ہو۔
کوئلے کی بجائے دیگر ایندھن کے استعمال پر زور دیا گیا۔گرین انرجی سورسز کا استعمال کیا جائے۔
سموگ پیدا کرنے والے تمام صنعتی پلانٹس کو شہروں سے باہر منتقل کر دیا جائے۔
دھوئیں والی گاڑیاں، موٹر سائیکلز، ٹرک اور ٹریکٹرز کو بھاری جرمانہ کیا جائے۔
اگر حکومت مستقل، سخت اور جامع حکمت عملی کے ساتھ یہ اقدامات کرے تو مجھے یقین ہے کہ لاہور سمیت پورے پنجاب میں سموگ کی شدت کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہر سردیوں میں یہی دھندلا منظر، یہی بیماریاں، یہی شکایات اور یہی بے بسی ہمارے حصے میں آتی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button