مساج سینٹر بند کیے جائیں

مساج سینٹر بند کیے جائیں
تحریر: خالد غورغشتی
اسلام دینِ فطرت ہے اور اس نے "حیا” کو ایمان کی روح قرار دیا ہے، مگر افسوس گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے شہروں کی گلیوں، بازاروں اور پوش علاقوں میں "مساج سینٹر” کے نام پر جو غیر شائستہ سرگرمیاں جاری ہیں، وہ نہ صرف ہمارے اخلاقی توازن کو متزلزل کر رہی ہیں بلکہ خاندانی نظام، نوجوان نسل اور اجتماعی شعور کے لیے ایک سنگین خطرے کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔
بہ ظاہر مساج سروس کی آڑ میں کام کیا جاتا ہے۔ جب کہ راولپنڈی، اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ کارروائی، اس کی واضح مثال ہے کہ یہ ایک فحاشی پھیلانے کا دھندہ بن چکا ہے؛ جہاں شالیمار پولیس نے پانچ مقامات پر چھاپے مار کر 21لڑکیوں اور 19مردوں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے اکثر مراکز معروف ابوظہبی ٹاور سمیت روز پیلس اور نیچرل راکس جیسے مقامات پر "سپا” کے نام سے چل رہے تھے۔ گرفتار افراد نے کُھلی لفظوں میں اعتراف کیا کہ مساج اور ڈانس پارٹیوں کی اوٹ میں باقاعدہ کاروبار کیا جا رہا تھا۔ یہ کوئی منفرد یا انہونا واقعہ نہیں۔ سوشل میڈیا اور اخبارات روزانہ اسی نوعیت کی خبروں سے لبریز ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کو کُھلی چھوٹ:ہمارے معاشرتی بگاڑ کو سب سے زیادہ ہوا، سوشل میڈیا نے دی ہے۔ ویڈیوز، اشتہارات، لڑکیوں کے نمبر، "گھر پر سروس” جیسی کُھلی پیشکش سب کچھ اس اعتماد سے ہوتا ہے، گویا کوئی قانونی و اخلاقی کام ہو۔ عمر کی کوئی قید نہیں، پردے کا کوئی لحاظ نہیں اور یوں یہ کاروبار روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔
مساج سینٹرز، شیشہ کیفے اور بگڑتی نوجوانی:معاملہ صرف جسم فروشی تک محدود نہیں رہا۔ یہ مراکز ہماری نوجوان نسل کی نفسیاتی اور فکری تربیت پر کاری ضرب بن چکے ہیں۔ جب نوجوان کھیل کے میدانوں، لائبریریوں اور علمی سرگرمیوں سے کٹ کر مشکوک مراکز، شیشہ کیفوں اور بے مقصد وقت گزاری کی طرف مائل ہو جائیں، تو سمجھ لیجیے کہ معاشرہ ناہمواری کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ یہ مراکز صرف بدن نہیں برباد کرتے، ذہنوں کو بھی داغ دار کر رہے ہیں۔
قانونی و انتظامی کمزوریاں:ایک اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بیشتر مساج سینٹرز بغیر رجسٹریشن اور غیر واضح لائسنسنگ کے تحت چل رہے ہیں۔ اداروں کی ملی بھگت، انتظامی غفلت اور قوانین کی ڈھیلی گرفت نے ان مراکز کو مکمل "آزاد کاروبار” کا درجہ دے رکھا ہے۔ کئی علاقوں میں ایسے مراکز کے ساتھ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی رپورٹس موجود ہیں، مگر عملی اقدام مفقود ہے۔
گھر پر سروس، استحصال کی نئی شکل:سوشل میڈیا کے ذریعے "گھر پر مساج” کے نام سے جو گھنائونی سازش رچائی جا رہی ہے، وہ نہ صرف خواتین کے لیے خطرہ ہے بلکہ معاشرے میں بے حیائی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہیں۔ لوکیشن مانگنا، راز داری کی یقین دہانی، کم عمر لڑکیوں کو لالچ دینا، یہ سب اس دھندے کا مرکزی حصہ ہے۔
حالیہ واقعات، ایک اجتماعی المیہ:ایک لڑکی پر تشدد اور اس کی ویڈیو کے ذریعے بلیک میلنگ کا واقعہ ہو یا لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے گینگز کی رپورٹس یہ سب ہمیں بتا رہے ہیں کہ معاملہ "چند غلط مراکز” سے بڑھ کر ایک "مکمل فساد” کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ غریب گھرانوں کی بچیاں، لالچ، مجبوری اور دھونس کے ذریعے پھنسائی جاتی ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کی علامت ہے۔
کیا صرف مراکز بند کرنا کافی ہے:ناکہ بندی اور تالے مسئلے کا پختہ حل نہیں۔ اگر متبادل فراہم نہ کیے گئے تو یہ برائیاں نئی شکلوں میں دوبارہ جنم لے سکتی ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان، لائبریریاں، سپورٹس کمپلیکس، ہنر سکھانے کے ادارے اور صحت مندانہ تفریح گاہیں فراہم کرے، تاکہ ان کے رجحانات مثبت سمت اختیار کر سکیں۔
حقیقی ضرورت، سوچ کی تطہیر:معاشرہ صرف قانون سے نہیں بلکہ اجتماعی شعور سے بدلتا ہے۔ اگر ذہنوں کی اصلاح نہ ہو تو برائی کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت پر گہری نظر رکھیں۔ سوشل میڈیا پر بے حیائی کے اشتہارات فوری بند کیے جائیں۔ پولیس، انتظامیہ اور مقامی ادارے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں۔ مذہبی و سماجی رہنما "بیداری شعور” کی مہم چلائیں۔
سخت ریگولرائزیشن: صرف وہی مراکز کام کر سکیں ، جن کے پاس تربیت یافتہ اسٹاف، شفاف ریکارڈ، کیمرہ مانیٹرنگ اور مرد و خواتین کے لیے الگ نظام موجود ہو۔
آن لائن اشتہارات پر مکمل پابندی:فحش یا مشکوک مواد شائع کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہیے۔
تحفظ اطفال کے سخت قوانین:ٹریفکنگ اور استحصال میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دی جائیں تاکہ یہ سلسلہ جڑ سے کٹ سکے۔
ایک باشعور قوم وہ نہیں جو صرف "اڈے” بند کر دے بلکہ وہ ہے جو ذہنوں، رویّوں اور رجحانات کو پاکیزگی اور وقار کی طرف لے آئے۔ اصلاحِ معاشرہ باہر سے نہیں، اندر سے شروع ہوتا ہے





