Column

غلامی کا خاتمہ: آزادی کا نامکمل سفر

غلامی کا خاتمہ: آزادی کا نامکمل سفر
صفدر علی حیدری
شہر خواب
ہر سال 2دسمبر کو دنیا بھر میں ’’ غلامی کے خاتمے کا عالمی دن‘‘ (International Day for the Abolition of Slavery) منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ کے ایک اہم کنونشن کی یاد دلاتا ہے، مگر اس کا بنیادی مقصد ان کروڑوں انسانوں کو یاد کرنا ہے جو تاریخی طور پر زنجیروں میں جکڑے گئے، اور ان لاکھوں افراد کے لیے آواز اٹھانا ہے جو آج بھی جدید غلامی کی شکلوں میں استحصال کا شکار ہیں۔ یہ دن اس عالمی عزم کی تجدید کا موقع ہے کہ آزادی ہر شخص کا بنیادی اور غیر مشروط حق ہے۔
غلامی کے خلاف قانونی اور اخلاقی جدوجہد ایک طویل اور مشکل راستہ طے کر چکی ہے۔
غلاموں کی تجارت (Slave Trade)کے خلاف پہلی عالمی سطح پر اہم آواز 19ویں صدی کے آغاز میں اٹھی۔ 1815 کے کانگریس آف ویانا میں، یورپی طاقتوں نے پہلی بار افریقہ سے ہونے والی غلاموں کی تجارت (Atlantic Slave Trade) کی مذمت کی اور اسے ختم کرنے کے مشترکہ ارادے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ فوری طور پر ختم نہ ہو سکی، مگر یہ غلامی کو ایک بین الاقوامی مسئلہ تسلیم کرنے کی پہلی بڑی کوشش تھی۔
اقوام متحدہ کے پیشرو، لیگ آف نیشنز نے 1926ء میں غلامی کنونشن (Slavery Convention)منظور کیا، جسے غلامی کی روایتی شکلوں کے خلاف سب سے اہم اور پہلا عالمی قانونی قدم سمجھا جاتا ہے۔ اس کنونشن نے غلامی اور غلاموں کی تجارت کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کی اہمیت یہ تھی کہ اس نے پہلی بار بین الاقوامی قانون میں غلامی کی تعریف کو متعین کیا۔2دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’’ انسانی سمگلنگ اور طوائف گری کے استحصال کو دبانے کا کنونشن‘‘ (Convention for the Suppression of the Traffic in Persons and of the Exploitation of the Prostitution of Others) منظور کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2دسمبر کو اس عالمی دن کے طور پر چنا گیا۔ مزید برآں، 1956ء میں ضمنی کنونشن (Supplementary Convention) نے قرض کی غلامی، موروثی غلامی اور بچوں کی جبری شادی کو بھی غلامی کے دائرے میں شامل کرکے قانونی دائرہ کار کو مزید وسیع کر دیا۔ جہاں روایتی غلامی ( جس میں ایک شخص دوسرے کی قانونی ملکیت ہوتا تھا) کو دنیا کے بیشتر ممالک میں قانونی طور پر ختم کر دیا گیا ہے، وہیں آج اس نے کئی نئی اور پیچیدہ عصری شکلیں اختیار کر لی ہیں۔
عالمی لیبر تنظیم (ILO)اور واک فری فائونڈیشن (Walk Free Foundation)کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، اس وقت 50ملین سے زیادہ لوگ جدید غلامی کا شکار ہیں، جن میں سے تقریباً 28ملین جبری مشقت اور 22ملین جبری شادی کا شکار ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ آج کل غلامی جدت کا لباس پہن کر پہلے سے کہیں زیادہ شدید رخ اختیار کر گئی ہے۔ جیسے قرض کی غلامی کہ یہ غلامی کی سب سے عام شکل ہے۔ جب ایک غریب شخص قرض لیتا ہے اور اسے ادا کرنے کے لیے خود کو یا اپنے خاندان کے افراد کو اس وقت تک جبری مشقت پر مجبور کرتا ہے جب تک کہ قرض ادا نہ ہو جائے، جو اکثر کبھی نہیں ہوتا۔ جنوبی ایشیا میں بھٹہ خوری (Brick Kiln Bonded Labor)اس کی بدترین مثال ہے۔جبری مشقت بھی ایک صورت ہے کہ جس میں ہر وہ کام شامل ہے جو دھمکی یا جسمانی طاقت کے استعمال سے کسی سے زبردستی لیا جائے، اور وہ شخص اپنی مرضی سے اسے چھوڑنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اس میں تارکین وطن مزدور، غیر دستاویزی ورکرز، اور کمزور طبقے آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ جدید غلامی کی ایک عالمی اور منافع بخش شکل ہے۔ اس میں لوگوں کو دھمکی، طاقت یا دھوکے سے بھرتی، منتقل یا وصول کیا جاتا ہے تاکہ ان سے جنسی استحصال، جبری مشقت، یا اعضاء کی اسمگلنگ جیسے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
کم عمر لڑکیوں کی زبردستی شادی کو بھی غلامی کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ انہیں آزادی، تعلیم اور فیصلہ سازی کے حقوق سے محروم کرتی ہے۔
لاکھوں خواتین اور بچے جو بند دروازوں کے پیچھے گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں، اکثر لمبے گھنٹے کام کرنے، کم تنخواہ یا بغیر تنخواہ کے کام کرنے، اور جسمانی و جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات نے غلامی کے رائج نظام کو ایک دم ختم کرنے کے بجائے، اس کے خاتمے کے لیے تدریجی، پائیدار اور انقلابی طریقہ کار اپنایا۔ اسلام نے انسانی وقار (Human Dignity)کو بنیادی قدر قرار دیتے ہوئے آزادی کی ترغیب دی۔
اسلام نے واضح طور پر غلام بنانے کے تمام نئے دروازے بند کر دئیے اور صرف جنگی قیدیوں کے معاملے میں محدود گنجائش رکھی۔ بنیادی پیغام یہ دیا کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں، اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے آزاد انسان کو غلام بنائے۔ اسلام نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی آزادی کے لیے مسلسل ترغیب، اور نئے غلام بنانے کی سخت حوصلہ شکنی کی۔ نبی اکرمؐ کا یہ فرمان کہ’’ جو شخص اپنے غلام کے ساتھ برا سلوک کرے وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا،‘‘۔ انسانی حقوق کے تحفظ کی اولین مثال ہے۔
اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کو محض ایک نیکی نہیں، بلکہ بعض گناہوں اور غلطیوں کا لازمی کفارہ قرار دیا۔ اگر کوئی شخص اظہار ( اپنی بیوی کو اپنی ماں کی طرح قرار دے کر چھوڑ دے) کرے تو اسے سب سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہوتا ہے۔
جھوٹی یا توڑی ہوئی قسم کا کفارہ بھی ایک غلام آزاد کرنا ہے۔
غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر بھی ایک لازمی شرط غلام آزاد کرنا رکھی گئی۔
ان قوانین کا مقصد یہ تھا کہ معاشی، سماجی اور قانونی طور پر اس نظام کی جڑیں کمزور ہوں اور آزادی کا عمل تیز ہو۔ زکوٰۃ کے مصارف میں بھی ایک حصہ خاص طور پر غلاموں کو آزاد کرانے ( الرِقاب) کے لیے مختص کیا گیا۔
جناب رسولؐ اور اہل بیت اطہارؓ نے غلاموں کو آزاد کر کے عملی نمونہ پیش کیا۔
سیدنا بلال بن رباحؓ کی آزادی اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے۔
نبی اکرمؐ نے اپنے انتقال کے وقت بھی کئی غلام آزاد کیے۔
اہل بیت اطہار میں حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، اور حضرت حسینؓ نے بھی کثیر تعداد میں غلام آزاد کیے۔ خاص طور پر حضرت زین العابدینؓ کا عمل یہ تھا کہ وہ ہر سال رمضان المبارک کی آخری رات کو اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا کرتے تھے، جو آزادی کی قدر کی واضح دلیل ہے۔
یہ تمام اقدامات اسلام کے اس بنیادی مقصد کو اجاگر کرتے ہیں کہ انسانیت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر کے انسانی وقار اور مساوات کو فروغ دیا جائے۔
2دسمبر کا دن محض ایک یاد دہانی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب تک دنیا میں ایک بھی شخص جبری مشقت، خوف، یا استحصال کا شکار ہے، آزادی کا خواب نامکمل ہے۔
اپنے ارد گرد جدید غلامی کی شکلوں ( جیسے کم تنخواہ پر غیر انسانی حالات میں کام کرنا یا بچوں سے مشقت لینا) کے خلاف آواز اٹھائیں اور حکام کو اطلاع دیں۔
انسانی سمگلنگ اور استحصال کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کریں، خاص طور پر نوجوانوں اور تارکین وطن کو۔ایسی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جن کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اپنی سپلائی چین میں جبری مشقت یا بچوں کی مزدوری استعمال کرتی ہیں۔
ان غیر سرکاری تنظیموں (NGOs)کی حمایت کریں جو غلامی سے متاثرہ افراد کی بحالی اور انہیں قانونی مدد فراہم کر رہی ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ آج بھی غلامی زندہ ہے، بس اس کی شکل بدل گئی ہے:
مالیاتی غلامی: قرض اور مالی دبائو کی وجہ سے انسان اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں۔
اقتصادی غلامی: کم اجرت، غیر انسانی کام کے حالات اور روزگار کی کمی لوگوں کو مجبور کرتی ہے۔
جغرافیائی غلامی: جنگ، مہاجرت یا پناہ گزینی کی وجہ سے لوگ اپنے ملک یا علاقے میں پابندیوں اور محدود آزادیوں کا شکار ہیں۔
سماجی و ثقافتی غلامی: تعلیمی یا صنفی امتیاز، غیر منصفانہ رواج اور سماجی دبائو بھی انسان کی آزادی کو محدود کرتے ہیں۔
ان تمام حالات کے باوجود، آخر میں ہمارا یقین اور شعور ہی زنجیریں توڑ سکتا ہے۔
اختتام: اقبالؒ کے الفاظ
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
یہ شعر واضح کرتا ہے کہ صرف قوانین یا تدبیریں نہیں، بلکہ یقین، شعور اور انسانی عزم سے ہی غلامی کی تمام زنجیر کٹ سکتی ہیں۔ یہی آزادی کا حقیقی اور نامکمل سفر مکمل کرنے کا راستہ ہے۔

جواب دیں

Back to top button