قدرت کے انتقام کی طرف بڑھتے فیصلے

قدرت کے انتقام کی طرف بڑھتے فیصلے
تجمّل حسین ہاشمی
تاریخ سے جلدی سیکھیں لیں کہیں ایسا ہو کہ قدرت آپ کو بھی اپنے انتقام کی طرف لے جا رہی ہے۔ یقینا یہ سوال دماغ میں آئے گا کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ قدرت ہمیں اپنے انتقام کی طرف لے جا رہی ہے، میرے حساب سے اس بات کی سمجھ کے لیے کوئی لمبی تفصیل یا کہانیوں، خدشات کی ضرورت نہیں، بس سادہ سادہ باتیں ہیں جو کبھی کبار انسان اپنی طاقت کے نشہ میں سمجھ نہیں سکتا اور عمل کرتا چلا جاتا ہے، پاکستانی سیاست کے طاقتور جنرل پرویز مشرف کی مثال لیں قدرت کیسے اپنا انتقام لے لیتی ہے۔ اللّہ پاک نے جنرل پرویز مشرف کو اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ملک کا سر براہ بنایا، وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کے صدر تھے، دنیا کی پانچویں بری فوج کے کمانڈر بھی تھے۔ نائن الیون کے بعد یہ دنیا بھر کے میڈیا میں سب سے زیادہ کوریج لینے والا بندہ تھا۔ دنیا بھر کی 20موثر ترین شخصیات میں شمار تھا، وہ خود کو بڑا مقرب ( نعوذ باللہ ) سمجھتے تھے، اس کی دلیل تھی کہ ’’میں تین بار کعبہ کی چھت پر چڑھا ہوں، میں نے ٹھیک اس جگہ کھڑا ہوا جہاں حضرت بلال نے اذان دی تھی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چار بار موت کے منہ سے بچ چکے ہیں، مشرف کے آنے پرمٹھائیاں تقسیم ہوئی تھیں۔ میاں شہباز شریف کہتے تھے اگر مشرف اپنے 7نکات میں سے آدھے پر عمل کر لیتا تو ہماری جلا وطنی سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ اب آتے ہیں قدرت کے انتقام کی طرف کہ انسان کیسے آگے بڑھتا ہے، قدرت کیسے انسان کو ذلیل خوار کرواتی ہے، مشرف کھلے عام باہر نہیں جا سکتا تھا، حکومت نے اس کی رہائش گاہ کو بھی پوشیدہ رکھا ہوتا تھا۔ وہ دنیا بھر کی کسی سڑک پر باہر نہیں نکل سکتا تھا، اس کو اپنی حفاظت کے لئے گارڈ، کمانڈو ساتھ رکھنے پڑتے تھے۔ اس سے بڑی عبرت اور کیا ہو گی، آپ کو ہر وقت خوف رہتا ہو کہ کوئی مجھے پر حملہ کر دے گا۔ مجھے قتل کر دے گا۔ دنیا بھر میں کئی طاقتور حکمران قدرت کے انتقام کے بعد بھیک مانگتے پائے گئے۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی آخری دن قید میں گزارے۔ اپنے ملاقاتیوں سے کہتا تھا کہ میں بد نصیب ہوں جیسے کوے یار میں تدفین کیلئے جگہ نہیں ملے گی۔ انگریز نے وظیفہ طے کیا ہوا تھا، جب ان کو وظیفہ دینے انگریز آتا تو وہ اس کے سامنے موٹے موٹے آنسوئوں سے رونا شروع کر دیتا تھا: ’’ افسوس بہادر شاہ تم پر افسوس، اللّہ نے تمہیں بادشاہ بنایا اور تم بیکاری بن گے ‘‘۔ شاہ ایران کی قبر ماتم کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہ دنیا بھر کے طاقتوروں کا انجام تھا، کیا ہم بھی روزمرہ کاموں میں قدرت کے انتقام کو اپنے مخالف کر رہے ہوتے ہیں، یقینا اگر ہم اپنی زندگی پر نظر ڈالیں تو کئی ایسے کام، فیصلے کرتے ہیں جو قدرت کے منافی ہوتے ہیں، جب انسان خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے خلق خدا کی آواز کو دبانا شروع کرتا ہے، اپنے جھوٹ کو سچا کہنا شروع کرتا ہے، میں ٹھیک ہوں کی رٹ لگے رکھتا ہے، اس وقت سمجھ جائو کہ قدرت کے انتقام کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے، خلق خدا پہلے سامنے سچ کہتی ہے پھر لوگ گلی، محلوں میں ظلم کی کہانیاں سنتے ہیں، قدرت کے انتقام کی طرف بڑھنے والے انسان کی نشانیاں بڑی واضح ہیں، وہ حق بات کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ خود کے درست ہونے کی وضاحتیں دیتا ہے۔ گزشتہ چند سال کے فیصلوں پر نظر ڈالیں بڑے بڑے نام قدرت کے فیصلوں کے ہاتھوں مجبور بے بس ہیں، جو کبھی عوامی لیڈر تھے آج کونوں میں بیٹھے ہیں، حکومتی ایوانوں میں جو صور حال ہے اس کے اثرات گلی، محلوں میں نظر آ رہے ہیں۔ کراچی نیپا چورنگی پر معصوم بچہ گٹر میں گر گیا، حکومتی مشینری بچہ تلاش نہیں کر سکی، ایک عام سے لڑکے نے بچے کو تلاش کر لیا، پوری سندھ سرکار کو قدرت نے خوار کروا دیا، ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جہاں قدرت کے فیصلے نظر آ رہے ہیں لیکن سیاسی ، معاشرتی طور پر بے حسی کی طرف بڑی تیزی کی بڑھ رہے ہیں، کان بند ہو چکے ہیں، ریاست تحفظ کا نام ہے لیکن لوگ اب ریاستی فیصلوں سے خوف محسوس کر رہے۔ لا قانونیت عام ہے، اداروں نے گروپ بندیاں بنا رکھی ہیں، ایک دوسرے کے غیر قانونی کاموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے نظر انداز کیا جا رہا ہے، حلال حرام کی تمیز کا فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں قدرتی انتقام کا آنا لازم ہو چکا ہے، چند سال بعد ملکی معیشت اور سماجی معاشرتی رویوں میں نفرت، تقسیم عام ہو گی۔ ابھی بھی کوئی صورتحال اچھی نہیں، لوٹ مار جاری ہے۔ ایوانوں میں بھی اپنے تحفظ کو قانونی بنایا جا رہا ہے۔ قانونی، آئینی صورتحال بہت خراب ہو گئی۔ بس عقل والوں کیلئے قرآن میں واضح ارشادات ہیں کہ وہ حق گوئی پر قائم رہیں، دونوں جہانوں کی بادشاہی اس کے ہاتھ میں ہے، چمک دھمک اور طاقتور کے ظلم سے خوف مت کھائیں، کیوں اللّہ کا فرمان ہے حق زندہ رہے گا، ظلم، جھوٹ مٹ جائے گا۔





