بھاری ٹریفک جرمانے: اصلاحات یا عوام پر نیا بوجھ؟

بھاری ٹریفک جرمانے: اصلاحات یا عوام پر نیا بوجھ؟
کالم نگار :امجد آفتاب
مستقل عنوان:عام آدمی
پنجاب میں ٹریفک جرمانوں کی نئی اور بھاری شرحوں کا نفاذ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب ملک بھر میں مہنگائی اپنے بلند ترین سطحوں کو چھو رہی ہے۔ عام آدمی کی آمدن کم ہو رہی ہے، روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں، اور متوسط طبقہ معاشی مشکلات کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں موٹر سائیکل کا کم از کم جرمانہ 2000روپے، رکشہ 3000، کار اور جیپ 5000، کمرشل لوڈنگ گاڑی 10000اور پبلک سروس مسافر گاڑی کا جرمانہ 15000روپے مقرر کرنا عوام کے لیے اصلاح نہیں بلکہ ایک نئے بوجھ کا پیغام بن کر سامنے آیا ہے۔
ریاستیں قانون بناتی ضرور ہیں، مگر ایک کامیاب اور منصفانہ ریاست وہ ہوتی ہے جو قانون سے زیادہ ’’ اس کے اثرات‘‘ کو سمجھتی ہے۔ قانون کا مقصد عوام کو سہولت دینا ہوتا ہے، ان کا سانس بند کرنا نہیں۔ لیکن ہماری پالیسیوں کا انداز اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔
جرمانے بڑھانا مسئلہ نہیں، مسئلہ ’’ کیوں اور کیسے‘‘ بڑھائے جا رہے ہیں؟
دنیا میں کہیں بھی قوانین کی سختی کو غلط نہیں سمجھا جاتا۔ ٹریفک قوانین سخت بھی ہونے چاہئیں اور ان پر عمل لازمی بھی ہونا چاہیے۔ لیکن ٹریفک قوانین کا اصل مقصد شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور نظم و ضبط برقرار رکھنا ہوتا ہے، نہ کہ محض سرکاری خزانے میں رقم بڑھانا۔
پاکستان میں قانون سازی سے زیادہ اس پر عملدرآمد کا بحران ہے۔ ٹریفک قوانین کتابوں میں مضبوط ہیں مگر سڑکوں پر کمزور۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قوانین پر عمل کرنے والے ادارے شفاف، اہل اور غیر جانبدار نہیں۔ جب سزا دینے والا نظام خود کمزور ہو، جب رشوت عام ہو، جب احتساب کا عمل کمزور ہو اور جب ٹریفک پولیس کا رویہ عوام دوست نہ ہو، وہاں بھاری جرمانے اصلاحات نہیں بلکہ پریشانی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار کے لیے 2000روپے کا جرمانہ محض ایک چالان نہیں، گھر کی دو دن کی دال روٹی، بچوں کی فیس، یا کسی بیمار کی دوائی کے برابر ہے۔ رکشہ ڈرائیور کے لیے 3000روپے تین سے چار دن کی محنت ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ ’’ جرمانہ زیادہ ہوگا تو لوگ قانون پر عمل کریں گے‘‘ ایک سہل جواب ضرور ہے، مگر حقیقت کے مقابل بالکل کھوکھلا۔
سوال یہ ہے: کیا حکومت نے عوام کے حالات دیکھ کر یہ فیصلہ کیا؟
ٹریفک جرمانوں کی نئی شرحوں کے نفاذ سے پہلے کیا حکومت نے یہ سوچا کہ:
کیا شہریوں کی آمدن بڑھ گئی ہے؟
کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے؟
کیا عوام مزید بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں؟
کیا ٹریفک پولیس میں اصلاحات کی گئی ہیں؟
کیا کیمرہ سسٹم فعال ہے؟
کیا رشوت کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟
اگر ان میں سے کوئی ایک بھی سوال ’’ ہاں‘‘ میں ہوتا تو حالات کچھ اور ہوتے۔ لیکن موجودہ معاشی ماحول میں بھاری جرمانے عام شہری کی لیے مزید مشکلات اور اداروں کے لیے مزید ’’ اختیارات‘‘ کا سبب بنیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی نظام کمزور ہوتا ہے تو سختی عوام کے لیے زیادہ نقصان دہ بنتی ہے، اصلاح نہیں۔
پاکستان میں گاڑی رکھنے والا طبقہ اور موٹر سائیکل رکھنے والا طبقہ ایک جیسا نہیں۔ ایک کے لیے 5000روپے معمولی بات ہے، دوسرے کے لیے یہ رقم عذاب۔ جرمانے بڑھانے سے پہلے یہ بنیادی چیزیں مکمل ہونی چاہئیں تھیں۔
عوامی آمدورفت کے لیے بہتر ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس کی تربیت، سڑکوں کی مرمت، سگنلز کی درستی اور رشوت کے خاتمے کے اقدامات۔
جب بنیادی سہولتیں موجود نہ ہوں تو شہریوں پر بھاری جرمانوں کا نفاذ انصاف کے بجائے سختی محسوس ہوتا ہے۔ ٹریفک قوانین سخت ہوں تو اصلاح آتی ہے، لیکن صرف وہاں جہاں قانون پر عمل دراصل نظام کی طاقت ہو۔ پاکستان میں جرمانہ بڑھانے کا ایک غیر محسوس مگر بڑا اثر رشوت میں اضافے کی صورت میں سامنی آئے گا۔
اگر جرمانہ 2000روپے ہے تو اہلکار کے لیے 300،400روپے کی ’’ گفتگو‘‘ زیادہ دلکش لگے گی۔ یوں نہ صرف قانون کمزور ہو جاتا ہے بلکہ وہ اہلکار جو ایمانداری سے کام کرنا چاہتا ہے، وہ بھی خواہشات کی اس فضا میں دب جاتا ہے۔
بڑھتے ہوئے جرمانے بدعنوانی کے مواقع بڑھاتی ہیں، قانون کا احترام نہیں۔
جرمانے تب موثر ہوتے ہیں جب: عملدرآمد غیر جانبدار ہو،رشوت کے خلاف سخت کارروائی ہو۔چالان صرف مشین کرے، انسان نہ کرے۔ سڑکوں کی حالت بہتر ہو۔ سب پر یکساں قانون لاگو ہو۔ شہریوں کو ٹریفک ایجوکیشن دی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ معیاری ہو۔
ہمارے یہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی، پولیس کی تربیت ناکافی، رشوت عام اور سگنلز خراب۔ ان حالات میں جرمانے بڑھانے سے ٹریفک نظام بہتر ہونے کے بجائے مزید بدعنوانی پھیلے گی۔
ریاست کو ’’ پہلے سہولت، پھر سختی‘‘ کا اصول اپنانا ہوگا
دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں اصلاحات کا پہلا اصول ہے:
پہلے سہولت، پھر پابندی۔
پہلے نظام، پھر قانون۔
پہلے اعتماد، پھر سختی۔
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ ترتیب ہمیشہ الٹی رہتی ہے۔ پہلے عوام پر بوجھ ڈالا جاتا ہے، پھر سسٹم بہتر کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے، جو دہائیوں بعد بھی پورا نہیں ہوتا۔
یہ بھاری جرمانے اصلاحات نہیں، مسائل میں اضافہ ہیں۔
ٹریفک قوانین میں شفاف عملدرآمد، بہترین تربیت، سڑکوں کی حالت، ٹیکنالوجی کا استعمال، رشوت پر قابو اور شہری سہولیات وہ بنیادی ستون ہیں جن کے بغیر جرمانے بڑھانا کسی فائدے کا نہیں حکومت نے اگر واقعی ٹریفک نظام بہتر بنانا ہے تو اسے جرمانے بڑھانے کے بجائے: اداروں میں اصلاحات، رشوت کا مکمل خاتمہ، جدید ٹریفک سسٹم، پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری، سڑکوں کی مرمت، شہری آگاہی پروگرام سے آغاز کرنا ہوگا۔ جب تک یہ بنیادی اصلاحات نہیں ہوتیں، بھاری جرمانے عوام کے لیے ایک نئی معاشی سزا کا سبب بنتے رہیں گے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے بھاری ٹریفک جرمانوں کا فیصلہ انتظامی لحاظ سے شاید درست ہو، مگر عوامی حالات کے مطابق یہ سخت نامناسب ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت اصلاحات کم اور بوجھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر حکومت واقعی ٹریفک نظام بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے رشوت، بدعنوانی، کمزور نفاذ اور شہری سہولت جیسے بنیادی مسائل حل کرنا ہوں گے۔
جرمانے تب ہی موثر ہوتے ہیں جب شہری محسوس کریں کہ یہ فیصلہ ان کی حفاظت کے لیے ہے، نہ کہ ان کی جیب خالی کرنے کے لیے۔





