وزیراعلیٰ مریم نواز اور ٹریفک ایکٹ

وزیراعلیٰ مریم نواز اور ٹریفک ایکٹ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
بسا اوقات انسان جن لوگوں کا ناقد ہوتا ہے ان کی احسن کارکردگی ان کی مداح سرائی پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ ناچیز مسلم لیگ نون کا ہمیشہ ناقد رہا ہے لیکن مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی ہونہار بیٹی محترمہ مریم نواز آئے روز صوبے کے عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے جو اقدامات کر رہی ہیں قابل تعریف ہیں۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ نے ساٹھ سالہ پرانے ٹریفک ایکٹ میں ترامیم کیں ہیں جن پر من و عن عمل ہو گیا تو یہ بات یقینی ہے صوبے کے عوام حادثات سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ انہیں ٹریفک کے اژدھام سے نجات مل جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے صوبے کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے بھی اقدام کئے ہیں، جن میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کو تحلیل کرکے بہت سی ستھرا پنجاب ایجنسیاں قائم کر دی ہیں۔ ہم سب سے پہلے ستھرا پنجاب کی بات کریں گے صوبہ تبھی صاف ستھرا رہ سکتا ہے جب شہری اور کاروباری طبقہ یہ ذمہ داری سمجھے انہیں ویسٹ سڑکوں، گلی اور محلوں میں پھینکنے کی بجائے مقررہ جگہوں پر رکھنا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے گھروں کا ویسٹ دوسرے لوگوں کے گھروں کے آگے پھینکنا کارئے ثواب سمجھتے ہیں، لہذا حکومت کے ساتھ یہ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے ویسٹ کو وہ جائے مقام پر پھینکیں نہ کہ سڑکوں محلوں اور گلیوں کی زینت بنائیں۔ ہم تو کہیں گے جو شہری اور دکاندار سڑکوں پر ویسٹ پھینکیں ایسے لوگوں پر جرمانے ہونے چاہئیں۔ وزیراعلیٰ نے ایسے مقامات جہاں پارکنگ نہیں ہو گی شادی ہال بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ تعجب ہے ملک میں جہاں جس کا جی چاہے میرج ہال بنا لیتا ہے۔ اگر ہم دوسرے ملکوں کی بات کریں خصوصا سعودی عرب جہاں تمام میرج ہال اور ورکشاپس شہروں سے باہر ہیں، جبکہ ہمارے ہاں بارونق جگہوں پر بنائے گئے ہیں۔ راولپنڈی جو میرا آبائی شہر ہے جگہ جگہ شادی ہال ہیں، جب کوئی فنکشن ہوتا ہے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے، جس سے شہریوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعلیٰ کو صوبے کے بلدیات کے ذمہ داروں کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں خواہ کوئی بھی ہو اندرون شہر جہاں پارکنگ کا انتظام نہیں میرج ہال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم وزیراعلیٰ کی توجہ ایک اہم معاملے کی طرف دلانے کی کوشش کرتے ہیں، بڑے بڑے شہروں میں رہائشی علاقوں میں بلدیات والوں نے کاروباری مراکز، جیسا کہ پلازے اور ہوسٹل بنانے کی اجازت دے رکھی ہے، ایسے غیر قانونی اقدامات کے خلاف بھی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ ٹریفک کی بات کریں تو ہمارے ہاں کسی کو اس بات کا شعور نہیں کہ سگنل پر رکنا ہے، عام طور پر لوگ ریڈ سگنل پر سٹرک عبور کر جانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا یہ اقدام بھی قابل ستائش ہے کہ نوعمر بچوں کو گاڑی چلانے پر گاڑی کے مالک کو جرمانہ کیا جائے گا بلکہ کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ ختم کرنے کے لئے کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کی پانچ سڑکوں پر رکشہ، چنگ چی چلانے کی ممانعت کردی گئی ہے، بلکہ اس طرح کی پابندی دیگر شہروں میں بھی ہونی چاہیے۔ ہمارے مشاہدات کی مطابق اسی فیصد لوگ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بچے موٹر سائیکل سلنسر کے بغیر چلا رہے ہوتے ہیں، جس سے بیمار اور عمر رسیدہ شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ اقدام بھی اچھا ہے جس میں بار بار چالان کی صورت میں گاڑی کا نیلام کر دیا جائے گا۔ اوور لوڈنگ جو ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کے خاتمے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں وزیراعلیٰ کی طرف سے صوبے کے عوام کی مشکلات کم کرنے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے اتفاق ہے، تاہم اس کے ساتھ یہ بات بہت ضروری ہے وزیر اعلیٰ کے احکامات پر من ومن عمل بھی ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کو بلدیات میں بیٹھے بعض رشوت خور افسروں اور عملے کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی ضرورت ہے، جن کی موجودگی سے وزیراعلیٰ کے احکامات ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ وزیراعلیٰ نے ٹریفک پولیس کے متبادل محکمہ قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، نئے نئے محکموں کے قیام سے عوام کی مشکلات کم نہیں ہوں گی، بلکہ جو محکمے پہلے سے کام رہے ہیں ان میں بیٹھے مبینہ کرپٹ ترین افسروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی صورت میں تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ٹریفک کا محکمہ پہلے سے موجود تھا سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے ٹریفک کے لئے ایک علیحدہ فورس قائم کر دی تاہم ٹریفک کے حالات پہلے سے ابتر ہیں، لہذا نئے نئے محکمے مسائل کا حل نہیں ہوتے بلکہ جو محکمے پہلے سے کام کر رہے ہوتے ہیں انہی سے کام لیا جائے، جس سے حکومت کو مالی بچت ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کو دیت کی رقم کی جلد فراہمی کا اقدام اچھا ہے۔ ہم وزیراعلیٰ پنجاب کی ایک اور اہم معاملے کی طرف توجہ دلانے کی سعی کر رہے ہیں، اس وقت پنجاب کی جیلوں میں سیکڑوں قیدی دیت کی رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے قید و بند میں ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کئی برس پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا تھا ایسے قیدی جو دیت کی رقم ادا نہ کرنے کی پاداش میں جیلوں میں پڑے ہیں دیت کی رقوم کی ادائیگی زکوٰۃ فنڈ سے کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ وزیراعلیٰ کو قیدیوں کو پیرول پر رہائی دینے کے لئے کابینہ کمیٹی کو فعال بنانا چاہیے۔ ویسے تو کابینہ کمیٹی کی اس مقصد کے لئے چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن پی ٹی آئی دور میں محکمہ پیرول کی تنظیم نو کی آڑ میں قیدیوں کی پیرول پر رہائی روک دی گئی، جو ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔





