’’ یوز اینڈ ڈسکارڈ‘‘ کی کلاسک انٹیلی جنس پالیسی

’’ یوز اینڈ ڈسکارڈ‘‘ کی کلاسک انٹیلی جنس پالیسی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
واشنگٹن ڈی سی کی یخبر بستہ ہوائوں اور طاقت کے ایوانوں کے عین سائے میں جب رحمان اللہ لاکن وال نامی سابق افغان’’ اثاثے‘‘ نے نیشنل گارڈز پر گولی چلائی، تو اس گونج نے صرف امریکہ کے دارالحکومت کو نہیں ہلایا بلکہ اس اعتماد کی بنیادوں کو بھی زمیں بوس کر دیا جو سپر پاورز اپنے اتحادیوں کے ساتھ قائم کرتی ہیں۔ یہ واقعہ، جسے امریکی میڈیا اب ایک ’’ دہشت گردانہ کارروائی‘‘ یا ’’ سکیورٹی کی ناکامی‘‘ کے سادہ غلاف میں لپیٹنے کی کوشش کر رہا ہے، دراصل اس پیچیدہ اور سفاک ’’ گریٹ گیم‘‘ کا ایک خونچکاں باب ہے جس میں’’ وفاداری‘‘ کا صلہ اکثر عبرتناک انجام کی صورت میں ملتا ہے۔ جب ہم اس سانحے کی پرتیں ہٹاتے ہیں اور ’’ آپریشن الائیز ویلکم‘‘ کی اصل روح کو ٹٹولتے ہیں تو ہمیں وہ تلخ حقائق نظر آتے ہیں جو ’’ نیو ورلڈ آرڈر کی مہرہ سازی‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ایک ذہنی مریض بن جانے والے جنگجو کی نہیں، بلکہ ان 82ہزار انسانوں کی ہے جنہیں امریکی طیاروں کے پہیوں سے لٹکنے والی امیدوں کے سہارے سات سمندر پار لایا گیا اور پھر کسی پرانے فائل کی طرح’’ ہیومینٹیرین پیرول‘‘ کے سرد خانے میں پھینک دیا گیا۔
آپریشن الائیز ویلکم، جسے اگست 2021ء میں کابل کے سقوط کے بعد شروع کیا گیا تھا، بظاہر انسانی ہمدردی کا ایک عظیم مشن تھا، لیکن اسٹریٹیجک اور انٹیلی جنس کے تناظر میں یہ کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے۔ امریکہ جن ہزاروں افغانوں کو عجلت میں نکال کر لایا، ان میں عام مترجمین یا ڈرائیورز نہیں تھے، بلکہ ان میں سی آئی اے کے تربیت یافتہ وہ ’’ خفیہ ہاتھ‘‘ شامل تھے جنہوں نے دو دہائیوں تک افغان طالبان کے خلاف وہ ’’ ڈرٹی وار‘‘ لڑی جسے امریکی فوج براہ راست لڑنے سے کتراتی تھی۔ رحمان اللہ لاکن وال کا تعلق اسی بدنام زمانہ ’’ خوست پروٹیکشن فورس‘‘ یا ’’ زیرو یونٹس‘‘ سے تھا، جنہیں سی آئی اے نے ٹارگٹڈ کلنگز اور رات کے چھاپوں کے لیے تیار کیا تھا۔ ان لوگوں کو امریکہ لانے کا مقصد محض انٹیلی جنس اثاثوں کو محفوظ کرنا تھا تاکہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ پڑ جائیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ جس نظام نے انہیں قاتل بننے کی تربیت دی، اسی نظام نے انہیں امریکی معاشرے میں ضم کرتے وقت ان کی ذہنی بحالی اور نفسیاتی علاج کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قندھار کے میدانوں کا جنگجو واشنگٹن کی سڑکوں پر بھی اپنے اندر کی جنگ ختم نہ کر سکا اور بالاخر اس نے بندوق کا رخ اپنے ہی’’ محسنوں‘‘ کی طرف موڑ دیا۔
جب 2021ء میں یہ انخلاء ہو رہا تھا تو افغان طالبان کا ردعمل انتہائی سخت اور واضح تھا۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس وقت اسے افغانستان کے لیے ’’ برین ڈرین‘‘ قرار دیتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ افغان ماہرین، ڈاکٹروں اور انجینئروں کو ملک سے باہر لے جانا بند کرے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ یہ لوگ افغانستان کا سرمایہ ہیں اور انہیں ملک کی تعمیر نو کے لیے یہیں رہنا چاہیے۔ تاہم، پس پردہ افغان طالبان کی قیادت خوش بھی تھی کہ وہ عناصر جو ان کے خلاف ہتھیار اٹھاتے رہے، وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، جس سے ان کے لیے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنا آسان ہو جائے گا۔
حالیہ شوٹنگ کے واقعے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، بادی النظر ایک اہم و درو رس نتائج کا حامل فیصلہ بھی ہے تاہم یہ ’’ عدم اعتماد‘‘ کی بدترین مثال ہے۔ رحمان اللہ کے انفرادی فعل کو بنیاد بنا کر تمام افغان شہریوں کے ویزوں اور امیگریشن پروسیسنگ کو روک دینا، امریکی پالیسیوں کا وہی رخ ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ پابندی امریکہ کے لیے عدم اعتماد کی وجہ اس لیے بن رہی ہے کیونکہ یہ دنیا کو پیغام دے رہی ہے کہ امریکہ کے لیے ’’ اتحادی‘‘ کا لفظ صرف تب تک معتبر ہے جب تک اس کی ضرورت ہے۔ وہ مترجمین جنہوں نے امریکی فوجیوں کو بارودی سرنگوں سے بچایا، وہ مخبر جنہوں نے افغان طالبان کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی، آج وہی لوگ ’’ سیکیورٹی رسک‘‘ قرار دے کر دھتکارے جا رہے ہیں۔
یہ ’’ یوز اینڈ ڈسکارڈ‘‘ ( استعمال کرو اور پھینک دو) کی کلاسک انٹیلی جنس پالیسی ہے۔ یہ پابندی مستقبل میں کسی بھی ملک کے شہریوں کے لیے ایک سبق ہے کہ اگر وہ امریکی مفادات کے لیے اپنی ریاست سے غداری کریں گے تو ان کا انجام واشنگٹن کے کسی حراستی مرکز یا کابل واپسی کی پرواز پر ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اگر امریکہ ان اتحادیوں کو واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جیسا کہ حالیہ سخت گیر پالیسیوں سے عندیہ مل رہا ہے، تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ یہ لوگ، خاص طور پر ’’ زیرو یونٹس‘‘ کے ارکان، امریکی جنگی حکمت عملی، انٹیلی جنس نیٹ ورک، اور حساس معلومات کا چلتا پھرتا خزانہ ہیں۔ اگر یہ افغان طالبان یا خطے میں موجود دیگر امریکہ مخالف قوتوں ( جیسے داعش خراسان یا دیگر ریاستوں) کے ہتھے چڑھ گئے، تو وہ تمام راز اگلوا لیے جائیں گے جو پچھلے بیس سالوں میں جمع کیے گئے۔ دوسری جانب، افغان طالبان کے لیے یہ لوگ ’[ واجب القتل‘‘ غدار ہیں۔
رحمان اللہ لاکن وال، جو اب امریکی قانون کی گرفت میں ہے، اور اس جیسے ہزاروں دیگر افغان اتحادی اس وقت شدید ذہنی دبا اور نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ (PTSD)کا شکار ہیں۔ تصور کریں اس شخص کی ذہنی حالت کا جسے برسوں تک یہ سکھایا گیا ہو کہ تشدد ہی بقا کا واحد راستہ ہے، اور پھر اسے اچانک ایک ایسے معاشرے میں چھوڑ دیا جائے جہاں کی زبان، ثقافت اور اقدار اس کے لیے اجنبی ہوں۔ مزید برآں، ’’ ہیومینٹیرین پیرول‘‘ کی عارضی حیثیت نے انہیں ایک مستقل خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ ہر روز اس ڈر کے ساتھ جاگتے ہیں کہ شاید آج ان کی ملک بدری کا پروانہ آ جائے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، یہ غیر یقینی صورتحال جنگی صدمات سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ رحمان اللہ کا ویڈیو گیمز میں پناہ ڈھونڈنا اور پھر اچانک تشدد پر اتر آنا اسی فرسٹریشن کا شاخسانہ ہے۔
امریکی پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نیشنل گارڈز پر حملہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ایک گہرے کینسر کی علامت ہے۔ جب آپ وفاداری کو جنسِ بازار بنا لیتے ہیں اور انسانوں کو اسٹریٹیجک مہروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تو ردعمل فطری ہوتا ہے۔ امریکہ نے ان لوگوں کے ماضی کو تو استعمال کر لیا لیکن ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں ناکام رہا۔ پاکستان جیسے ممالک، جو اب بھی افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور جہاں ہزاروں افغان امریکی ویزوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں، اس صورتحال کو گہری تشویش سے دیکھ رہے ہیں۔





