اصلاحات معاشی استحکام کی راہ

اصلاحات معاشی استحکام کی راہ
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے حالیہ بیانات ملکی معیشت کے حوالے سے محتاط مگر واضح سمت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اسٹاف لیول معاہدہ طے پاچکا ہے، حکومت ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل پیرا ہے اور معاشی اشاریوں میں بتدریج بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ تاہم، یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان کی معیشت کئی دہائیوں سے ساختی کمزوریوں، پالیسی عدم تسلسل اور ادارہ جاتی مشکلات کا سامنا کرتی آئی ہے۔ ایسے میں موجودہ بیانات اُمید کی کرن ضرور ہیں مگر ان کا حقیقت میں بدلنا ایک مسلسل اور مربوط کوشش کا متقاضی امر ہے۔ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ پاکستان کیلئے وقتی ریلیف اور اعتماد سازی کا ذریعہ ضرور بنے گا، لیکن یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام محض ایک سہارا ہے، منزل نہیں۔ پاکستان کی معیشت کا مسئلہ بیرونی فنڈنگ کی کمی سے زیادہ داخلی ڈھانچہ جاتی نقائص ہیں۔ ٹیکس نیٹ کا محدود دائرہ، خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے، غیر مستحکم توانائی پالیسی، کمزور صنعتی بنیاد، اور درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار یہ تمام چیلنجز پاکستان کی معاشی رفتار کو باندھے رکھتے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے بھی اصلاحات کے عمل پر زور دیا ہے، جو اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام سے نکل کر پائیدار بنیادوں پر کھڑا ہونے کیلئے اپنی ساختی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔وزیراعظم کی جانب سے یہ بیان کہ پرائیویٹ سیکٹر ہی ملک کو لیڈ کرے گا، پاکستان کی معاشی سمت کے تعین کیلئے نہایت اہم ہے۔ دنیا بھر میں ترقی کا پہیہ حکومتیں نہیں بلکہ نجی شعبہ چلاتا ہے، نئی صنعتیں قائم کرتا ہے، روزگار پیدا کرتا ہے، جدت لاتا ہے اور مسابقت بڑھاتا ہے۔ اگر حکومت واقعی نجی شعبے کو مرکزی کردار دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا جائے، ریڈ ٹیپ کو کم کیا جائے، ٹیکس نظام شفاف اور سادہ بنایا جائے، توانائی کی لاگت کم ہو، چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کیلئے مالی سہولتیں فراہم کی جائیں، ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ سرچارج کے خاتمے کی وزیر خزانہ کی تجویز اس سمت میں پیش رفت ہے، جو برآمد کنندگان کیلئے کسی حد تک ریلیف کا باعث بنے گی۔ تاہم، صرف سرچارج کے خاتمے سے برآمدات نہیں بڑھتیں، اس کیلئے جامع صنعتی پالیسی، کم لاگت توانائی، جدت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق برآمدات میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے، ITشعبے میں ماہانہ بنیادوں پر بہتری دیکھنے میں آرہی ہے اور رواں مالی سال ترسیلات زر 41ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یہ اشاریے مثبت ضرور ہیں مگر پاکستان کی معاشی وسعت کے پیش نظر یہ بہتری ناکافی ہے۔ برآمدات میں حقیقی بہتری اُس وقت آئے گی جب ویلیو ایڈیڈ سیکٹر پر توجہ دی جائے، ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن کی جائے، زرعی پیداوار میں اضافہ اور اس کی پروسیسنگ بڑھائی جائے، علاقائی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی بہتر بنائی جائے۔ ITشعبے میں بہتری خوش آئند ہے، مگر پاکستان کو عالمی مسابقت کیلئے ITایکسپورٹس کو کم از کم دوگنا کرنے کی ضرورت ہے، جس کیلئے ہنرمند افرادی قوت، عالمی مارکیٹ تک رسائی اور فری لانسنگ ریگولیشنز میں نرمی اہم ہے۔ ترسیلات زر کا 41 ارب ڈالر تک پہنچنا بھی ایک بڑی پیش رفت ہوگی، مگر ترسیلات پر حد سے زیادہ انحصار بھی پائیدار حکمت عملی نہیں۔ پاکستان کو ترسیلات کے ساتھ برآمدات اور سرمایہ کاری کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے ادارہ جاتی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا اشارہ امید دلاتا ہے۔ توانائی شعبہ، ٹیکس نظام، SOEs، گورننس اور عدالتی نظام، یہ تمام وہ ستون ہیں جن میں اصلاحات کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ پاکستان میں اصلاحات کا مسئلہ ہمیشہ نفاذ کی سطح پر ناکامی کا شکار رہا ہے۔ پالیسی اچھی بنی، مگر عمل درآمد نہ ہوا۔ یہی وہ خلیج ہے جسے پاٹنا ضروری ہے۔ اصلاحات کا تعلق صرف معاشی نہیں، بلکہ سیاسی عزم سے ہے۔ اگر سیاسی قیادت مضبوطی کے ساتھ اصلاحاتی ایجنڈے کی پشت پناہی کرے تو نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ وزیر خزانہ کا پاکستان فرسٹ ایجنڈا اسی سمت میں ایک بیانیہ ساز کوشش ہے۔ ادائیگیوں کا توازن اور کرنٹ اکائونٹ وہ دو پیمانے ہیں جو کسی بھی معیشت کی صحت کی عکاسی کرتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، جس نے زرِمبادلہ ذخائر کو شدید دبائو کا شکار کیا۔ حکومت کی جانب سے درآمدی نظم و نسق بہتر بنانے اور برآمدات بڑھانے کی کوششیں درست سمت میں ہیں، لیکن ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ نے پانڈا بانڈ کے جلد اجرا کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اقدام پاکستان کیلئے چین کی مالیاتی منڈیوں تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ اگر یہ بانڈ مناسب شرح سود اور سازگار شرائط کے ساتھ جاری ہوا تو پاکستان کیلئے ایک نیا مالیاتی راستہ کھل سکتا ہے۔ تاہم، بار بار قرضوں پر انحصار طویل مدت میں خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے اصل ہدف اپنی مالیاتی خودمختاری کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے۔ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے آئندہ ہفتے اجلاس کی خبر اہم ہے۔ پاکستان میں مالیاتی تقسیم ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم شفاف اور منصفانہ ہو تو ملکی استحکام اور ترقی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں این ایف سی اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کے بیانات بلاشبہ مثبت عزم کی علامت ہیں مگر پاکستان کو اب بیانات نہیں، عملی نتائج کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کا سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر حکومت پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت اور دوراندیشی کو برقرار رکھے، نجی شعبے کو حقیقی معنوں میں طاقت فراہم کرے اور معیشت کو مصنوعی سہاروں کے بجائے پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرے تو پاکستان ترقی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی معاشی سمت درست کرے، کیونکہ مستقبل کا پاکستان اسی فیصلے پر کھڑا ہوگا کہ آج ہم نے کون سا راستہ چنا، اصلاحات اور خود انحصاری کا، یا پھر موجودہ دائرے میں قید رہنے کا۔
دہشت گرد حملہ ناکام، 4
خوارج ہلاک،2جوان شہید
خیبر پختونخوا کے علاقے سینٹرل کُرم میں چنارک پولیس چیک پوسٹ پر خوارج کے حملے کی ناکامی نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کو اجاگر کیا ہے۔ اس واقعے میں جہاں دہشت گردوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی، وہیں پولیس کے دو جوانوں کی شہادت اور کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہیں، لیکن اس واقعے نے ایک اور اہم سوال کو جنم دیا، آیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں صرف قربانیوں کا سامنا ہی رہے گا، یا ہم اس چیلنج کا مستقل اور جامع حل تلاش کر پائیں گے؟ چنارک پولیس چیک پوسٹ پر حملہ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی جارحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے کُرم ایجنسی جیسے حساس علاقے میں اس قسم کے حملے اس بات کے غماز ہیں کہ دہشت گردوں کی فکری بنیادیں آج بھی کئی حصوں میں مضبوط ہیں۔ یہ حملہ جو بظاہر ایک مقامی سطح پر کارروائی لگتی ہے، دراصل عالمی دہشت گرد نیٹ ورک سے جڑا ہوا ایک خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ عناصر اس خطے کی امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ لیکن یہاں پر جس بات نے امید کی کرن جگائی ہے وہ ہے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے پروفیشنل ازم اور عزم۔ ڈی پی او کُرم کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی جوابی کارروائی میں 4دہشت گرد ہلاک اور 6زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ دہشت گردوں کے حملوں کے باوجود ہماری فورسز ان حملوں کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہیں اور ان کی کامیابیوں کو نظرانداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دینی پڑی ہیں، ان میں پولیس اور فوج دونوں کے جوان شامل ہیں۔ چنارک حملے میں پولیس کے دو جوانوں کی شہادت نے اس حقیقت کو مزید اجاگر کیا کہ ہمارے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر قوم کی حفاظت کررہے ہیں۔ ان شہادتوں کو صرف ایک المیہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ ایک عزم کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ یہ لوگ صرف اپنی زندگیوں کی قیمت پر نہیں، بلکہ ایک بہتر پاکستان کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرتے ہیں۔ ہمارے سیکیورٹی اداروں کی قربانیاں ہمارے اجتماعی عزم کی علامت ہیں کہ ہم دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ کریں گے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی جانوں کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف اصل کامیابی تب ہی ممکن ہے جب دہشت گردوں کی فکری بنیادوں کو کمزور کیا جائے اور انہیں مقامی سطح پر عوامی حمایت سے محروم کیا جائے۔ چنارک حملے کے بعد پولیس نے فوری مزید نفری روانہ کی، جس نے تین گھنٹے تک مسلسل مقابلہ کیا۔ یہ فوری ردعمل پاکستان کی پولیس فورس کے جدید تربیت اور انتظامی صلاحیتوں کی مثال ہے۔ اس واقعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیس کا مربوط اور متحد ردعمل انتہائی اہم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صرف پولیس یا فوج کی طاقت سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔





