Column

نئے صوبے، بہتر حکمرانی اور مضبوط وفاق

نئے صوبے، بہتر حکمرانی اور مضبوط وفاق
تحریر : صفدر علی حیدری
پاکستان آج ایک ایسے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کی ترقی اور قومی استحکام کا دارومدار صدیوں پرانے، جابرانہ اور ناکارہ انتظامی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات پر ہے۔ ملک میں جاری بدانتظامی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اور مقامی سطح پر فیصلہ سازی کے فقدان نے نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کیا ہے بلکہ یہ قومی سلامتی اور معیشتی استحکام کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کا واحد پائیدار حل یہ ہے کہ ملک کے بڑے علاقوں کو چھوٹے، موثر انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے اور نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ اختیارات براہِ راست عوام تک پہنچیں اور وفاق زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔
دنیا کے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک اس اصول کو تسلیم کر چکے ہیں کہ بہتر انتظام اور موثر حکمرانی کے لیے بڑے علاقوں کو چھوٹا کرنا ناگزیر ہے۔ یہ ممالک ثابت کرتے ہیں کہ وفاقی اکائیوں کی کثرت وفاق کو کمزور نہیں بلکہ مزید طاقتور بناتی ہے۔ مثال کے طور پر، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 50ریاستیں موجود ہیں، جہاں ہر ریاست کو سینیٹ میں مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ یہ مساوات اور مقامی خودمختاری وفاقی توازن کو برقرار رکھتی ہے اور ہر ریاست کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اسی طرح، بھارت میں آج 28ریاستیں اور آٹھ مرکزی زیر انتظام علاقے ہیں۔ بھارت نے لسانی اور انتظامی دونوں بنیادوں پر ریاستوں کی تقسیم کا مشکل عمل کامیابی سے مکمل کیا ہے، جیسا کہ آندھرا پردیش سے تلنگانہ کے قیام کی مثال ہے۔ نائجیریا میں 36ریاستیں اور روسی فیڈریشن میں 80سے زائد وفاقی اکائیاں موجود ہیں، جہاں مقامی خودمختاری اور غیر مرکزیت کی بنیاد پر ہر اکائی اپنے مسائل بروقت حل کر سکتی ہے، ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے، اور وفاق مضبوط رہتا ہے۔
پاکستان میں بدانتظامی اور حکمرانی کی کمزوری کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اختیارات اور وسائل منصفانہ اور غیر مرکزیت کے اصول کے مطابق تقسیم نہیں کیے گئے۔ وفاقی سطح پر مالی مرکزیت کا اثر صوبوں پر پڑا ہے، اور بڑے صوبے اپنے بڑے اضلاع پر یہی رویہ اپناتے ہیں۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈز کے تحت صوبوں کو فنڈز ملتے ہیں، مگر صوبائی دارالحکومتوں پر زیادہ خرچ ہونے کے باعث دور دراز کے اضلاع، جیسے جنوبی پنجاب، شمالی سندھ یا ہزارہ ڈویژن ترقیاتی منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بڑے صوبوں میں انتظامیہ کا ارتکاز صوبائی سیکریٹریٹ تک محدود رہتا ہے، جس سے مقامی سطح پر فیصلہ سازی محدود رہتی ہے اور محروم علاقے ترقی سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مزید برآں، بڑے صوبے بلدیاتی اداروں کو کمزور رکھتے ہیں تاکہ اختیارات صوبائی دارالحکومت میں مرکوز رہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن ممالک میں مقامی خودمختاری موجود ہے، وہاں نئے صوبوں یا اکائیوں کی مخالفت کم ہوتی ہے، جبکہ پاکستان میں جہاں اختیارات اور وسائل محدود ہیں، وہاں اکثر سیاسی اور لسانی بنیادوں پر مخالفت کی جاتی ہے، جو نہ صرف سیاسی منافقت بلکہ غیر جمہوری سوچ کی علامت ہے۔
پاکستان کی بعض سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کے قیام پر مفادات کی بنیاد پر دوغلا رویہ اختیار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پنجاب میں ایک پارٹی تقسیم چاہتی ہے تو دوسری نہیں۔ دیگر صوبوں میں وہ تقسیم کی حمایت کرتی ہیں، مگر محروم علاقوں میں خاموش رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو جماعتیں تقسیم کی مخالفت کرتی ہیں، وہ موجودہ اختیارات کے ارتکاز کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کی سیاسی اجارہ داری کمزور نہ ہو۔ اگر واقعی پاکستان کی ترقی ان کے لیے اہم ہے، تو انہیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بڑے اضلاع اور صوبوں کو چھوٹے، مثر انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اس سے عوام تک اختیارات اور وسائل پہنچیں گے، مقامی قیادت ابھرے گی، اور وفاقی توازن قائم رہے گا۔نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت میں تین بڑے اعتراضات سامنے آتے ہیں:
1۔ اخراجات بڑھ جائیں گے: یہ دلیل حقیقت سے دور اور سطحی ہے۔ ریاست کا اصل خرچ نئے سیکریٹریٹ یا دفاتر کے قیام میں نہیں بلکہ بڑے صوبے میں بدانتظامی، کرپشن اور وسائل کے غیر متوازن استعمال میں ہوتا ہے۔ نئے صوبے مقامی ٹیکس بیس کو وسیع کرتے ہیں، ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بڑھاتے ہیں اور عوام تک خدمات کی موثر فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔
2۔ نئے صوبے لسانی یا نسلی بنیاد پر ہوں گے: حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے متعدد ممالک نے نئے صوبے صرف انتظامی اور مقامی ضروریات کی بنیاد پر قائم کیے ہیں۔ نئے صوبے یا انتظامی یونٹس کی بنیاد مقامی ترقی، جوابدہی، اور بہتر گورننس ہونی چاہیے، نہ کہ کسی مخصوص لسانی یا نسلی مفاد کی۔ اگر لسانی بنیاد پر بھی صوبے بنائے جائیں، جیسا کہ بھارت نے کیا، تو یہ وفاق کو کمزور نہیں بلکہ ہر گروہ کو اپنی ثقافت اور زبان کی ترقی کا موقع فراہم کرتا ہے، جس سے ان کا وفاق پر اعتماد بڑھتا ہے۔
3۔ وفاق کمزور ہو جائے گا: یہ دلیل جذباتی پروپیگنڈا پر مبنی ہے۔ اصل کمزوری بدانتظامی، مرکزیت، اور وسائل کے غیر متوازن بہائو میں ہے۔ اگر بڑے اضلاع یا صوبے چھوٹے، موثر انتظامی یونٹس میں تقسیم کر دئیے جائیں تو مقامی قیادت ابھرے گی، وسائل شفاف اور منصفانہ بنیاد پر تقسیم ہوں گے، اور سیاسی اجارہ داری کم ہوگی۔ مضبوط وفاق کی بنیاد بڑے صوبے کی وحدت میں نہیں، بلکہ شفاف اور موثر گورننس میں ہے۔
پاکستان میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے کئی محروم علاقوں میں ترقی کی رفتار سست کر دی ہے۔ بڑے صوبوں یا اضلاع کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے سے مقامی قیادت ابھرے گی، منصوبی جلد مکمل ہوں گے، اور وسائل کا شفاف استعمال ممکن ہوگا۔ چھوٹے صوبے مقامی ترقی اور جوابدہی میں اضافہ کریں گے، عوامی خدمات کی فراہمی موثر بنائیں گے، وسائل کا شفاف اور منصفانہ استعمال یقینی بنائیں گے، اور وفاقی توازن و استحکام کو مضبوط کریں گے۔نئے صوبے کے قیام سے جو اخراجات ہوں گے، وہ فوائد کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ چھوٹے صوبوں میں نچلی سطح کے سیاسی کارکنوں کو وزیراعلیٰ، وزیر یا سیکریٹری بننے کا موقع ملے گا، سیاسی عمل میں زیادہ لوگ شامل ہوں گے، چند خاندانوں کی اجارہ داری ختم ہوگی، اور جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔
پاکستان کو مضبوط، متوازن اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے بڑے اضلاع اور صوبوں کو چھوٹے، موثر انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بہتر گورننس، منصفانہ ترقی، مقامی قیادت کا ابھرنا، سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ اور وفاق کی مضبوطی، یہ تمام فوائد اخراجات سے کہیں زیادہ قیمتی اور دیرپا ہیں۔
عالمی تجربہ واضح ہے: اکائیوں کی کثرت، وفاق کی طاقت ہے۔ پاکستان کو بھی لچکدار اور دور اندیشی پر مبنی سیاسی فیصلے کر کے نئے صوبوں کے قیام کی طرف بڑھنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button