Column

شادی: خوشی کا رشتہ یا سماجی بوجھ؟

شادی: خوشی کا رشتہ یا سماجی بوجھ؟
تحریر : امجد آفتاب
پاکستانی معاشرے میں شادی ہمیشہ مسرت، امید اور نئی زندگی کے آغاز کی علامت رہی ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہ مقدس بندھن دھیرے دھیرے ایک ایسے سماجی دبا میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے جو خوشی سے زیادہ خوف پیدا کرتا ہے۔ جس شادی کو شریعت نے سادگی اور آسانی کے ساتھ جوڑا تھا، ہم نے اسے رسومات، دکھاوے اور فضول خرچی کی بھٹی میں دھکیل کر اس کی اصل روح سے دور کر دیا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ درمیانے طبقے کا نوجوان شادی کے نام سے ہی گھبرا اٹھتا ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا بے قابو طوفان، دوسری طرف ایونٹس کی بھرمار، ڈیکوریشن کی بے انتہا قیمتیں+، فوٹوگرافی کا کاروبار اور سوشل میڈیا کی مقابلہ آرائی، یہ سب مل کر شادی کو ایک معاشی امتحان بنا چکے ہیں۔ لگتا ہے گویا شادی نہیں، کوئی ’’ پریمیئم پراجیکٹ‘‘ لانچ کیا جا رہا ہو۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شادی کے نام پر نمود و نمائش کا یہ سلسلہ ہمارے سماجی توازن کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ مایوں، مہندی، ڈھولکی، برائیڈل شاور، میوزیکل نائٹس اور فوٹو شوٹس جیسے غیر ضروری ایونٹس نے گھریلو خوشی کو فیشن کی دوڑ میں بدل دیا ہے۔ جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی معاشی حیثیت سے زیادہ کی نمود و نمائش کر کے قسطوں، قرضوں اور ذہنی دبائو کا شکار ہو رہے ہیں۔
جہیز کی لعنت بدستور ہماری سماجی کمزوریوں کی علامت ہے۔ قانون، شعور اور تعلیم کے باوجود آج بھی بیٹی والوں سے توقعات کا کوہِ گراں رکھا جاتا ہے۔ یہ غیر منصفانہ روایت نہ صرف خاندانوں کا معاشی بوجھ بڑھاتی ہے بلکہ کئی گھروں میں بیٹیوں کے رشتے تاخیر کا شکار کر دیتی ہے۔ افسوس کہ جہیز کو ’’ محبت کا تحفہ‘‘ کہہ کر اس کی قباحتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ان مسائل نے نوجوان نسل کے ذہنوں میں شادی کا وہ تصور باقی نہیں چھوڑا جو محبت، عزت اور اعتماد کا استعارہ تھا۔ ’’ لوگ کیا کہیں گے‘‘ کی سوچ نے ان کی ذہنی صحت تک متاثر کر دی ہے۔ ایک بڑی تعداد اس خوف کا اظہار کرتی ہے کہ شادی خوشی کم اور ذمہ داریوں اور خرچوں کا بوجھ زیادہ بن چکی ہے۔ کئی نوجوان اس خوف کے سبب شادی میں تاخیر کرتے ہیں جبکہ خاندان ان وجوہات کو سمجھنے کے بجائے الزام نوجوانوں پر ڈال دیتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شادی سے متعلق غیر ضروری رسومات کا چلن صرف امیر طبقے تک محدود نہیں رہا۔ متوسط اور غریب طبقہ بھی انہی رجحانات کی تقلید کرتے ہوئے اپنی حیثیت سے بڑھ کر تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔ یوں معاشرے میں ایک ایسا چکر پیدا ہو گیا ہے جہاں ہر طبقہ دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے غیر ضروری خرچ کا عادی بنتا جا رہا ہے۔ یہ سماجی رویہ نہ صرف خاندانوں کی مالی تباہی کا باعث ہے بلکہ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو بھی کمزور کر رہا ہے۔
دوسری جانب علما اور سماجی رہنما مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ شادی کی اصل روح سادگی، برکت اور نیک نیتی میں پوشیدہ ہے۔ تاریخِ اسلام کی شادیاں اسوہ حسنہ کے مطابق نہایت سادہ ہوا کرتی تھیں۔ مگر آج جدیدیت کی دوڑ نے ہمیں اپنی روایات اور دینی تعلیمات سے دور کر دیا ہے۔ اگر ہم اس سادگی کو اپنانے کی بجائے نمود و نمائش کی غلامی کرتے رہے تو معاشرہ مزید انتشار کا شکار ہو گا۔
سوال یہی ہے کہ کیا ہم اس رویے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ شادی جیسی اہم سماجی صورت حال خوف، مقابلے بازی اور دکھاوے کے زیرِ اثر مزید بگڑتی جائے؟ یا ہم اس رجحان کو روکنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں گے؟ سماجی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خاندان اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی نہ لائیں اور نوجوان اپنی زندگی کو دوسروں کی نظر کے بجائے اپنے وسائل اور ضرورت کے مطابق ترتیب نہ دیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رسومات کے اس غیر ضروری بوجھ کو اجتماعی طور پر رد کریں۔ شادی کی تقریبات کو مختصر اور بامقصد بنائیں۔ سادگی کو رواج دیں۔ ون ڈش پابندی پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور جہیز کے بائیکاٹ کو معاشرتی مہم کی صورت دیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نوجوان نسل کو اپنی زندگی کے فیصلے معاشرتی دبا کے بجائے عقل، شعور اور استطاعت کے مطابق کرنے کی تلقین کی جائے۔
شادی دو خاندانوں کے ملاپ کا نام ہے، نہ کہ مقابلہ آرائی کی منڈی۔ اگر ہم سادگی، اعتدال اور حقیقی اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹ آئیں تو نہ صرف شادی آسان ہو سکتی ہے بلکہ معاشرے میں خوشی، سکون اور اعتماد بھی واپس لوٹ سکتا ہے۔ شادی کو آسان بنانا وقت کی سب سے اہم سماجی ضرورت ہے، ورنہ یہ رشتہ واقعی خوشی کے بجائے خوف کا استعارہ بنتا چلا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button