کیا پیپلز پارٹی کی کوئی نظریاتی اساس ہے؟

کیا پیپلز پارٹی کی کوئی نظریاتی اساس ہے؟
تحریر : روشن لعل
30نومبر 2025ء کو پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں اپنی 58 ویں سالگرہ منائی ۔اپنے قیام کے بعد مدوجزر کے ماحول میں ماہ و سال گزارنے والی پیپلز پارٹی پاکستان کی ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی تصویر کشی ہر کوئی اپنے تصور کے مطابق کرنے کے بعد اصرار کرتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی خیالی تصویر کو ہی اس جما عت کا اصل چہرہ مان لیا جائے۔ ملک میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایسی دھونس اور دھاندلی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیںہے ۔ پیپلز پارٹی کے متعلق کوئی کچھ بھی کہے مگر اس سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک خاص نظریے کی حامل جماعت کا حصہ ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی نظریاتی اساس کیا ہے۔
پیپلزپارٹی پاکستان کی ایسی واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنے قیام کے بعد ہفتوں اور مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں مغربی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔پیپلز پارٹی کے مقبول جماعت بننے میں اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی مسحور کن شخصیت نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے جو پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا اس کے اہم نکات کسی نہ کسی شکل میں یہاں پہلے سے موجود کچھ سیاسی جماعتوں کے منشو رکا حصہ تھے مگر ان جماعتوں کے کسی بھی رہنما کی شخصیت بھٹو جیسی نہیں تھی۔ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے پروگرام اور منشور کی بنیاد جن نعروں پر رکھی گئی وہ یہ ہیں، ’’ اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘۔پیپلز پارٹی کے ان نعروں میں سے خاص طور پر ’’ سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ نے مزدوروں ، کسانوں اور طالب علموں کو اس پارٹی کی طرف راغب کیا۔ ’’ سوشلزم‘‘ سرد جنگ کے زمانے کا مقبول ترین نعرہ تھا۔سرد جنگ کا زمانہ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا ، دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی یورپین ایمپائرز کی پوری دنیا میںپھیلی ہوئی نوآدیایوں کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ یورپی ایمپائرز کے تسلط کے خاتمے سے پہلے ہی ان کی نوآبادیوں میں سوشلزم کا نظریہ نہ صرف متعارف ہو چکا تھا بلکہ اس نظریے کی بنیاد پر کچھ سیاسی گروہ اور پارٹیاں بھی معرض وجود میں آ چکی تھیں۔ ہندوستان سمیت کئی دیگر نوآبادیوں میں روسی انقلاب سے متاثر سیاسی کارکن سوشلزم کی طرف مائل ہوئے۔ ہندوستان میں 1922ء کے دوران ’’ سوشلسٹ‘‘ کے نام سے پہلا ہفت روزہ شائع ہوا۔ اسی تسلسل میں 25دسمبر 1925ء کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی انڈیا میں شامل لوگ کمیونسٹ کہلائے، یہ لوگ روسی کمیونسٹ پارٹی کی پیروی میں بذریعہ انقلاب سوشلسٹ نظام رائج کرنے کے دعویدار تھے۔ ان کمیونسٹوں کے علاوہ بھی ہندوستان میں سیاسی کارکنوں کا ایسا گروہ موجود تھا جو نعرہ تو سوشلزم کا لگاتا تھا مگر خود کو کمیونسٹ نہیں بلکہ سوشلسٹ کہتا تھا۔ جن لوگوں نے ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی بنائی ان کا کبھی نہ کبھی ہندوستان میں سیاست کی جد امجد سمجھی جانے والی کانگریس پارٹی سے تعلق رہا تھا مگر جس سوشلسٹ گروپ کایہاں ذکر کیا گیا ہے اس نے کانگریس پارٹی کے اندر رہتے ہوئے کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے نام سے اپنا ایک الگ گروپ بنایاتھا۔
ہندوستان کے جن ابتدائی سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے یہ دونوں ہی مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے خواہاں تھے۔ ان دونوں میں بنیادی فرق یہ تھا کہ سوشلسٹوں کا ہدف فرد کی جمہوری اور شخصی آزادیوں کا دفاع کرتے ہوئے عوام کے مساوی معاشی حقوق کا ضامن معاشرہ تشکیل دینا تھا جبکہ کمیونسٹوں کا ماننا تھا کہ ریاست کے آمرانہ کردار کے بغیر ‘مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ہوسکتی۔ مساوات پرمبنی معاشرے کی تشکیل کے یکساں ہدف کے باوجود اس کے حصول کے لیے اختیار کیا گیا متحدہ ہندوستان کے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا راستہ یکساںنہیںتھا۔
کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے سوشلسٹوں کا موقف یہ تھاکہ ریاست پر قابض ہونے کے بعدجبر کا راستہ اختیار کرکے مستحکم سوشلسٹ سماج کا حصول ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اس موقف کے جواز کے طور پردی گئی دلیلوں میں یہ کہا گیاتھا کہ اگر ریاستی جبر کو معاشرتی تعمیر نو کا واحد آلہ سمجھ لیا جائے توجو سماج تشکیل پائے گا اس میں انسان اپنی ذات کی حد تک آزاد اور خود مختار نہیںہوگا بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں کسی فوجی یونٹ کے اجتماعی نظم و ضبط کا اسیر بن کر رہ جائے گا۔ ایسے پابند معاشرے میںانسانو ں کی حیثیت اور افعال انسانوں کی طرح نہیںرہیں گے بلکہ مشین جیسے ہو کر رہ جائیں گے ۔ متحدہ ہندوستان میں سوشلزم کا یہ نظریہ برطانیہ میں 1884ء میں قائم ہونے والی فیبیئن سوسائٹی(Fabian Society) کی معاشرتی تبدیلی کی حکمت عملی کے زیر اثر تھا۔فیبین حکمت عملی کے مطابق یہ طے کیا گیا تھا مساوات پر مبنی معاشرے کے حصول کے لیے جنگ وجدل کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پرامن جدوجہدکی جانی چاہیے ۔ فیبیئن سوسائٹی(Fabian Society) بنانے والوںنے اپنے پروگرام میں پر امن سیاسی عمل کے ذریعے عوام کے لیے معاشی استحکام اور آسودگی کے حصول کے یکساں و مساوی مواقع کی فراہمی ، قابل احتساب ، روادار اور فعال جمہوری نظام کا قیام، شہری حقوق اور شہری آزادیوں کے احترام اورپوری دنیا میں مستحکم ترقی کے لیے اقوام عالم کے درمیان کثیر الجہتی تعاون کے فروغ جیسے اقدامات کو اپنے مستقبل کے اہداف قرار دیا تھا۔
اب ہم بات کرتے ہیں پیپلز پارٹی کی نظریاتی اساس کیا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی نے ’’ سوشلزم ہماری معیشت ہے ‘‘ کا نعرہ لگایا تواس سے مراد کیسا سوشلزم تھا۔پیپلزپارٹی نے ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کی فراہمی کو اپنے منشور کا حصہ بناتے ہوئے، جمہوری سوشلزم کی تقلید کو اپنی راہ عمل قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویز میں یہ کہا گیا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ ملک کے استحصال زدہ طبقات کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقصد نگاہ سوشلزم کا وہ نظریہ تھا جسے کبھی برصغیر میں کانگریس سوشلسٹ پارٹی قائم کرنے والوں نے وضع کیا تھا اور جو کسی نہ کسی طرح برطانیہ میں 1884ء میں قائم ہونے والی فیبیئن سوسائٹی(Fabian Society)کے پروگرام کے قریب تر تھا۔
اس دنیا میں اگرچہ متشدد انقلاب کے ذریعے سوشلسٹ سماج کا قیام ممکن نہیں رہا مگر پیپلز پارٹی نے جس جمہوری سوشلسٹ نظریے کے مطابق اپنا پروگرام مرتب کیا اس پر عمل کرنا اب بھی ممکن ہے۔ گو پیپلز پارٹی اپنے دعووں، عوام کی خواہشات اور اطمینان کے مطابق مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے پروگرام پر عمل نہیں کر سکی مگر عوام کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، پہلے سے موجود روزگار کو تحفظ دینے اور تنخواہوں میں اضافہ جیسے جو کام پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے کیے اس کی مثال کوئی دوسری سیاسی جماعت اب تک قائم نہیں کر سکی۔پاکستان کی خاص سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال میں پیپلز پارٹی کو جب بھی اقتدار ملا اس نے یہ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ وہ اپنی نظریاتی اساس ’’ سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے نعری کے مطابق عمل کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہے۔





