بدعنوانی اور پاکستانی معیشت
بدعنوانی اور پاکستانی معیشت
شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
پاکستان میں بدعنوانی ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے جو نہ صرف ملک کی معیشت بلکہ سماجی ترقی، عوامی اعتماد اور ملکی استحکام پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) کی تازہ ترین رپورٹ اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹس دونوں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ بدعنوانی ملک کے ہر شعبے میں موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لے جانے کا دعویٰ کرنی والی جماعت نے اس رپورٹ کو تین ماہ تک چھپائے رکھا ، پبلک نہیں کیا ۔ اب نئی قسط نہ ملنے کی دھمکی پر اسے پبلک کرنے پر مجبور ہوئی ۔ یہی ایک بات موجودہ حکومت کی کارکردگی کا بھونڈا پھوڑنے کو کافی ہے ۔
بلاشبہ بد عنوانی ایک انتظامی مسئلہ ہے جو ہر سطح پر موجود ہے اور ملک کی مجموعی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف نے اسے ’’ ہر سطح پر مستقل اور تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ نہ صرف سرکاری فنڈز کے ضیاع کا سبب بنتی ہے بلکہ منڈیوں کو بگاڑنے، منصفانہ مسابقت میں رکاوٹ ڈالنے، اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو محدود کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد محمد علی جناحؒ نے بد عنوانی کو ایک زہر قرار دیا اور اس کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ستر برس گزرنے کے باوجود یہ مسئلہ برقرار ہے، اور رپورٹ کے مطابق سابقہ حکومتیں اور فوجی دور دونوں اس میں یکساں طور پر ملوث رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بد عنوانی کسی خاص دور یا سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظامی اور ساختی مسئلہ ہے، جو معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچوں میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔ بد عنوانی کی اقسام اور طریقہ کار بد عنوانی کی مختلف شکلیں ملکی وسائل کو چاٹ رہی ہیں۔
نچلی سطح پر، عوام کو سرکاری دفاتر میں بنیادی خدمات حاصل کرنے کے لیے دی جانے والی پیٹی کرپشن (Petty Corruption) عام شہری کی روزمرہ زندگی میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اس کے برعکس، گرینڈ کرپشن (Grand Corruption) میں اعلیٰ سطح پر پالیسیوں کو ذاتی مفاد کے لیے موڑنا شامل ہے، جیسا کہ پبلک پروکیورمنٹ، بڑے ترقیاتی ٹھیکوں کی غیر شفاف الاٹمنٹ، اور سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے بینکوں سے بڑے قرضوں کی ہیرا پھیری یا معافی۔
معاشی اثرات کے حوالے سے، آئی ایم ایف رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیب کے ذریعے دو برسوں میں ( جنوری 2023ء سے دسمبر 2024ء تک) تقریباً 5.3کھرب روپے کی ریکوری ہوئی۔ لیکن یہ بد عنوانی کے حقیقی معاشی بوجھ کا محض ایک چھوٹا حصہ ہے۔ پاکستان میں بد عنوانی کے حقیقی حجم کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیونکہ اکثر معاملات غیر سرکاری اور چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹس بھی واضح کرتی ہیں کہ سالانہ بجٹ اور سرکاری اخراجات میں شفافیت کی شدید کمی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2024۔25میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ترقیاتی منصوبوں میں تقریباً 15فیصد وسائل غیر موثر یا ضائع ہوئے، جو کہ مالی ضوابط کی خلاف ورزی اور اداروں کی ساختی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ انسانی ترقی اور غریب پر بوجھ۔ بد عنوانی کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں ہیں۔ فنڈز کے ضیاع کی وجہ سے تعلیم اور صحت کے شعبے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ سکولوں اور ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات، ادویات اور عملے کی کمی واقع ہوتی ہے، جس کا براہِ راست نقصان غریب اور کمزور طبقے کو ہوتا ہے۔ خدمات سے محرومی کے باعث ان کا حق تلف ہوتا ہے اور ملک کے مجموعی انسانی ترقی کے اشاریے (HDI)بہتر نہیں ہو پاتے۔
عالمی سطح پر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشنز انڈیکس (CPI)میں پاکستان کی کم درجہ بندی بین الاقوامی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ یہ کم درجہ بندی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک ریڈ سگنل ہے، جو انہیں یہاں سرمایہ کاری کرنے سے روکتی ہے۔ غیر قانونی سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہوتا ہے، جبکہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی کمی ملک کو طویل مدتی استحکام سے محروم رکھتی ہے۔ بد عنوانی کے بنیادی اسباب آئی ایم ایف اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں بد عنوانی کے بنیادی اسباب درج ذیل ہیں
مالیاتی کمزوریاں: بجٹ سازی، مالی رپورٹنگ اور سرکاری مالی و غیر مالی وسائل کے انتظام میں بے ضابطگیاں اور شفافیت کی کمی۔
ٹیکس اور عدالتی نظام:: پیچیدہ اور غیر شفاف ٹیکس نظام اور عدالتی عملے کی کمزوری، جو معاہدوں کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔
احتسابی اداروں کی کمزوری: احتسابی اداروں کے باہمی انتشار اور محدود عملی خودمختاری۔
نگرانی کی ناکامی: اداروں کی نگرانی اور آڈٹ کی ناکافی صلاحیت، جس سے مالی بے ضابطگیاں بڑھتی ہیں
اصلاحات کا ایجنڈا اور حل کی راہ
آئی ایم ایف نے پاکستان میں شفافیت، انصاف اور دیانت داری کو بہتر بنانے کے لیے 15نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
کلیدی اصلاحاتی اقدامات
احتساب اور عدلیہ: عدالتی افسران کی کارکردگی اور اخلاقی معیار کی نگرانی مضبوط بنانا۔
مالیاتی نظم و ضبط: سرکاری مالی و غیر مالی وسائل کے استعمال میں شفافیت اور مالی نظم و ضبط کو بہتر بنانا۔
اداروں کی خودمختاری: سرکاری اداروں کی خودمختاری اور موثر نگرانی کو یقینی بنانا تاکہ سیاسی دبائو سے تحفظ حاصل ہو۔
سہولت کاری: ٹیکس نظام کو آسان اور شفاف بنانا تاکہ بدعنوانی کے مواقع کم ہوں۔
آڈٹ پر عمل: آڈیٹر جنرل کے آڈٹ کے نتائج کو بروقت عمل میں لانا اور اداروں کی ذمہ داری کو یقینی بنانا۔
عوامی شرکت اور میڈیا کا کردار اصلاحات کو موثر بنانے کے لیے صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں۔ اس کے لیے سول سوسائٹی، آزاد میڈیا اور عوام کا کردار بھی کلیدی ہے۔ سرکاری پالیسیوں میں عوامی شراکت داری اور نگرانی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، وِسِل بلورز (Whistleblowers)کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر کرپشن کو بے نقاب کر سکیں۔ اصلاحات کے ثمرات آئی ایم ایف اور آڈیٹر جنرل دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مضبوط گورننس اور سیاسی عزم کے بغیر صرف ریکوری یا سزا کافی نہیں۔ اگر پاکستان موثر اور جامع اصلاحات نافذ کر لیتا ہے، تو ملک کی معیشت میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔
معاشی استحکام: جی ڈی پی میں 5سے 6.5فیصد اضافہ، سرمایہ کاری میں اضافہ۔
عوامی فلاح: عوامی خدمات کی بہتری اور غریبوں کے لیے بہتر مواقع۔
بین الاقوامی فائدہ: عوامی اعتماد بحال ہوگا، غیر قانونی سرمایہ کاری کے بہائو کو محدود کیا جا سکے گا، اور ملک کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوگی۔
پاکستان میں بد عنوانی ایک نظامی، تاریخی اور پیچیدہ مسئلہ ہے جو معاشی ترقی، سماجی انصاف اور عوامی فلاح کو محدود کرتا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف ریکوری اور سزا پر توجہ دی جائے بلکہ مضبوط گورننس، شفاف عدلیہ، مالی نظم و ضبط، اداروں کی موثر نگرانی اور بھرپور سیاسی عزم کے ذریعے ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جو ملک کی ترقی اور عوام کی بھلائی کے لیے موثر ثابت ہو ۔
چین نے کرپشن پر کیسے قابو پایا ( زیرو ٹالرنس ، پھانسی کی سزا) ۔ ہمارے لیے ایک مثال ہے ۔ ہمارے حکمران اٹھتے بیٹھتے چین کا ورد کرتے ہیں مگر چین کی پیری نہیں کرتے۔





