Column

کیا وقت بڑی دولت اور سب ٹھیک ہے؟

کیا وقت بڑی دولت اور سب ٹھیک ہے؟
تحریر: خالد غورغشتی
بدقسمتی سے غلامانہ سماج میں ہمیشہ سے کچھ ایسے غیر دانش مندانہ دستور و قواعد رائج رہے ہیں؛ جن کی حقیقت صرف نچلے طبقے کو جکڑنا ہوتا ہے۔ ان میں سے چند عجیب وغریب اصول و ضوابط سے آج پردہ اُٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وقت ہی سب سے بڑی دولت:
وقت اور دولت کا آپس میں بھلا کیا موازنہ بنتا ہے؟ لیکن کمزور طبقے کو صُبح سے شام تک کام کے بدلے کہا گیا کہ وقت ہی بڑی دولت ہے۔
روٹی کپڑا اور مکان:
عموماً ہر نچلے طبقے کی آواز دبانے کے لیے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کے چکر میں اپنے ریاستی حقوق کو بھول جائیں۔ وہ ریاست کو لعن طعن تو کریں، مگر محنت مشقت کے باوجود ان کی یہ سوچ ہو کہ وہ پائو آٹا کما لیں، ان کا ماننا ہوتا ہے، ان کی تقدیر کا لکھا کل: ’’ پِیٹ وِچ نا پئیاں روٹیاں تے ساریاں گلاں کُھوٹیاں‘‘ کے گرد گُھومتا ہے۔ ان کا ذہن بن جاتا ہے، اِس نظام کو بَدلنے کی بجائے، دوچار دن کی زندگی ہے، پیٹ بھرو اور عیش و عشرت کرو، یہی مقصدِ حیات ہے۔
سب ٹھیک ہیں:
حیرت تو یہ کہ دن رات نظام اور حکمرانوں کو لعن طعن کرنے والے جب تھوڑا سا مسئلہ پیش آتا ہے تو سر عام رشوتیں دے کر کہہ رہے ہوتے ہیں، سب ٹھیک ہے؛ اپنی فکر کرو۔
آپ ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہے: ظالمانہ سماج میں ہمیشہ سے یہ سوچ رہی ہے کہ آپ ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ہے۔ حالاں کہ فردِ واحد کے ٹھیک ہونے سے سب ٹھیک نہیں ہو جاتا، بلکہ جب تک مکمل نظام ٹھیک نہ ہو، کوئی بھی، کہیں بھی بہتری کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔
پیٹ کے لیے سب کرنا پڑتا ہے:
پچھلی سطور میں گزر چکا کہ غلامانہ سماج میں پیٹ ہی سب کچھ بن جاتا ہے؛ جسے پالنا بڑی فتح کہلاتی ہے۔ اس لیے جب بھی غلامانہ سوچ کے حامِل افراد کے پاس پیسہ آتا ہے، وہ اِسے لنگر، ولیمہ، برسی، جہیز، رسوم و رواج اور خرافات کے ساتھ ساتھ فلاحی، مذہبی اور سیاسی تنظیمات کے خود ساختہ ڈھانچوں کو مرتب کرنے کی پالیسیوں پر لگا دیتے ہیں۔ جس کا مقصد معاشرے کو وقت گزاری کے سوا عملی طور پر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
جائو اپنے کام سے کام رکھو:
غلامانہ نظام میں جکڑی قوم کے سامنے جب بھی تبدیل کی بات کی جاتی ہے، وہ تمسخر اُڑاتے ہوئے، اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر کہتی ہے: جائو اپنا کام کرو، ہمیں رسم و رواج، توہم پرستی، رنگا رنگ خرافات کو اپنانے دو، اسراف، مہنگائی کو بڑھانے دو اور نسل نو کے مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے ڈبونے دو۔
وہ گھر میں دانے بھیجتا ہے کیا؟
جب بھی اس بدبُو دار نظام کو بدلنے کے لیے کوئی عظیم رہنما یا قیادت اُٹھتی ہے، مذکورہ بالا خرافات کی حامل قوم اس کے بارے میں طرح طرح کی عجیب و غریب منطقیں پیش کرتے ہوئے کہتی ہے، دفع کرو، اندر سے سب ملے ہوئے ہیں، اپنا کما کر؛ پہلے بھی کھاتے تھے، یہ بھی آگئے تو اپنا ہی کما کر کھائیں گے۔ کون سا ہمارے گھر کسی نے دانے بھیجنے ہیں؟ یوں غلام قوم فرسودہ سوچ کی وجہ سے ہمیشہ دُنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوتی ہے۔
جدید سوچ اور نئی منطق سے گریز:
مذہب اور ثقاقت کے نام پر پھیلائی گئی، بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو قوموں کو نسل در نسل ابتر حالات تک پہنچاتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ہر معاملے میں نظر کا لگنا، دوسروں کو گرانے کے لیے تعویز دھاگے، جادو اور منتر کا سہارا لینا بھی شامل ہے۔ کوئی ان کے خلاف بات کرے تو سب اس کو دلائل دے کر خاموش کروا دیتے ہیں۔
ظالم حکمرانوں کے نعرے اور وعدے:
ہماری قوم جلد ہی سوشل میڈیا ٹرینڈ کی طرح ہر معاملے کو بُھلا دیتی ہے۔ ہمارے حکمران اور نظام کو چلانے والے، یوں ان کو فرسودہ و بوسیدہ حالت میں رکھ کر، انھیں اپنے پائوں تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔ افسوس! ہماری قوم کی عقل سے کب پردہ اُٹھے گا اور وہ یک جا ہو کر اپنی تقدید کے فیصلے خود کرے گی۔
بیرون دبائو: بدقسمتی سے ہمارے ملک کی ڈور شروع دن سے ہی ایسے ہاتھوں میں رہی ہے، جنہوں نے ہمیں غیروں کا محتاج اور ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ انہوں نے غیروں کے من چاہے فیصلے مان کر ایسے ایسے قانون بنائے کہ نچلا طبقہ مُرجھا کر رہ گیا۔ آج ہماری ناکام پالیسیوں کے سبب ہمارا ہر بچہ پیدا ہوتے ہی لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ افسوس ہم کب تک غیروں کے آلہ کار بن کر اپنوں کو ڈستے رہیں گے؟۔

جواب دیں

Back to top button