جماعت اسلامی کی ملک گیر تحریک اور اپوزیشن جماعتیں

جماعت اسلامی کی ملک گیر تحریک اور اپوزیشن جماعتیں
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
جماعت اسلامی نے تین روزہ اجتماع کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا ہے، اس میں آئینی ترامیم کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ اعلان ایک طرح سے وقت کی ضرورت بھی تھی۔ جماعت اسلامی کی تاریخ اور خصوصا اس کی ذیلی جماعت اسلامی جمعیت طلبہ کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ہے۔ ملک میں دھرنوں کی ابتداء جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد نے کی تھی۔ جو نظم جماعت اسلامی میں دیکھنے میں آیا اس کی مثال کسی سیاسی جماعت میں نہیں ملتی۔ جماعت اسلامی کے مخلوق خدا کے لئے فلاحی منصوبوں پر نظر ڈالیں تو انسان عش عش کر اٹھاتا ہے۔ ملک کی یہ واحد جماعت ہے جسے ملک کا ہر مکتبہ فکر عطیات دے کر خوشی محسوس کر تا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے، چند ایسے افراد جو اپنی آنکھوں کا آپریشن کرانے کی سکت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ اس ناچیز نے جماعت اسلامی راولپنڈی کے نائب امیر سید ارشد فاروق صاحب کی خدمت میں عرض کی، جنہوں نے بخوشی ان لوگوں کے فری میں آنکھوں کے آپریشن کرا دیئے۔ میرے خیال میں انسانیت کی اس سے بڑی اور کیا خدمت ہو سکتی ہے جب کسی کی بنیائی لوٹ آئے اور وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے۔ جماعت اسلامی میں کے کسی احتجاج کی ناکامی کا سوال پیدا نہیں ہوتا جس کی بڑی وجہ یہ ہے جماعت میں نظم و ضبط کے تحت تمام امور انجام دیئے جاتے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی مثال سب کے سامنے ہے جماعت اسلامی اس بڑے ایشو کو نہ اٹھاتی تو بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو سکتی تھی۔ جماعت اسلامی کی تحریک نے حکومت کو بجلی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا۔ پی ٹی آئی کی بدقسمتی تھی کے پی کے میں ایک مرتبہ جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرکے راہیں جدا کر لیں ورنہ آج جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں اتحاد ہوتا حکومت کو آئینی ترامیم واپس لینے پر مجبور کر سکتیں تھیں۔ تحریک اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں جب تمام سیاسی جماعتیں اخلاص سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں لیکن سیاسی رہنمائوں میں جب ذاتی مفادات کا حصول ہو تو تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس وقت آئینی تحریک کے خلاف کسی قسم کی تحریک چلانے کا مسئلہ ہے اگر تمام اپوزیشن جماعتیں یکجا ہو ں تو کوئی وجہ نہیں حکومت آئینی ترامیم واپس نہ لے۔ بدقسمتی سے وکلا ء برادری گروہوں میں بٹی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو آئینی ترامیم کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کی فکر ہو تو یہ وقت سب جماعتوں کو آئینی ترامیم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جانا چاہیے۔ ملک کی معاشی حالت کی بات کریں تو رونا آتا ہے حکومتی دعووں کے برعکس سرمایہ کاری نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ سرمایہ کار واپس جا رہے ہیں۔ سوال ہے بھارت بنگلہ دیش اور کمبوڈیا میں لوگ کیوں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ کوئی حقیقت پوچھے تو سیاست دانوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد حکومت نے چھپ سادھ لی ہے اگر حکومت میں مبینہ کرپشن نہیںہے تو حکومت کو آئی ایم ایف کی چارج شیٹ کا جواب دنیا چاہیے۔ کئی سو ارب کی مبینہ کرپشن کے باوجود حکومتی دعوی ہے ملک کے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اگر ملک کی معاشی حالت اچھی ہو رہی ہے تو قومی اداروں کی نج کاری کس مقصد کے لئے کی جا رہی ہے۔ شوگر اور گندم اسکینڈل اسی حکومت کے دور میں ہوئے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا گیا۔ شوگر مافیا کا تعلق حکمرانوں سے ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک راست باز سابق جج جناب عبادالرحمٰن لودھی بتا رہے تھے جب وہ ملتان بینچ میں تعینات تھے رمضان شوگر مل کا مقدمہ ان کے روبرو پیش ہوا تو انہوں نے شوگر مل کے وکیل کو دلائل دینے کو کہا لیکن وکیل صاحب لیت و لعل کر رہے تھے۔ آخر جب فیصلہ ہوا تو جج صاحب نے حکم دیا سرکاری اراضی پر شوگر مل سے قبضہ فوری واپس لی جائے اور جیتنا عرصہ شوگر مل نے سرکاری اراضی کو زیر استعمال رکھا اس عرصے کا معاوضہ قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔ سیاسی رہنمائوں میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ہوتا وہ آئینی ترامیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے لیکن اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ آج بھی وقت ہے تمام اپوزیشن جماعتیں اور وکلاء برادری اپنے اپنے مفادات کے خول سے نکل کر آئینی ترامیم کے خلاف سڑکوں پر آجائیں اور حکومت کو ترامیم واپس لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے وکلا ء کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اگر ہم جے یو آئی کی بات کریں تو اس کے امیر بڑی بڑی بڑھکیں مارتے نہیں تھکتے، جب کسی احتجاج کی بات ہوتی ہے وہ کنارہ کشی کر لیتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بشمول جے یو آئی جماعت اسلامی وکلاء کے بغیر بھی آئینی ترامیم کے خلاف تحریک چلائیں تو حکومت کو ترامیم واپس لینے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ سیاسی رہنمائوں نے اقتدار میں بار بار آکر ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کے بعد ملک میں ہونے والی کرپشن میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہتی۔ کئی ہزار ارب کی کرپشن کے انکشاف کے بعد عوام کا اس حکومت پر کیا اعتماد رہ گیا ہے۔ کئی روز گزرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کی رپورٹ پر کسی قسم کا ردعمل سامنے نہ آنا اس بات کا بین ثبوت ہے ملک میں کرپشن وسیع پیمانے پر پائی جا تی ہے۔ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا نہیں البتہ یہ حقیقت ہے عمران خان نے پاکستانی قوم کو باشعور کر دیا ہے، انہیں اچھے اور برے سیاست دانوں کی اچھی طرح تمیز ہو چکی ہے چنانچہ یہی وجہ تھی گزشتہ الیکشن میں عوام نے روایتی سیاست دانوں کو مسترد کر دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے حکومت کو فارم 45کی بدولت اقتدار میں لا کر ملک و قوم سے بڑی زیادتی کی گئی، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔





