
جگائے گا کون؟
غزہ جنگ بندی، اسرائیلی مظالم جاری
تحریر: سی ایم رضوان
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھتے ہوئے مزید چار فلسطینی شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ افسوس کہ عالمی دبا اور متعدد بین الاقوامی مطالبات کے باوجود اسرائیلی حملے بدستور جاری ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق 10 اکتوبر کے غزہ امن معاہدے کے بعد اسرائیل کی جانب سے اب تک 500 سے زائد بار جنگ بندی کی معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جن میں 300 سے زیادہ فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی امدادی تنظیم اُنروا نے بھی غزہ کی موجودہ صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی مکمل طور پر امداد پر منحصر ہے اور زیادہ تر لوگوں کو روزانہ صرف ایک بار کھانا دستیاب ہوتا ہے۔ ادھر امریکا کی حمایت یافتہ متنازع امدادی تنظیم ’’ غزہ ہیومنٹیرین فانڈیشن‘‘ نے بھی اپنے آپریشن معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ تنظیم کے مراکز پر امداد کی تقسیم کے دوران اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔ غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور بین الاقوامی برادری نے فوری طور پر جنگ بندی پر عمل درآمد اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فورسز نے 10 نومبر سے جنگ بندی معاہدے کی 497 دستاویزی خلاف ورزیاں کی ہیں جو کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزیاں ہیں۔ غزہ کے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ صرف ہفتے کے روز 27 خلاف ورزیاں ہوئیں جس کے نتیجے میں 24 فلسطینی ہلاک اور 87 زخمی ہوئے۔ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے اب تک کل 342 شہری جن میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بوڑھے شامل ہیں، ہلاک اور 875 زخمی ہو چکے ہیں زخمیوں کے زندہ رہنے کی امید اس لئے بہت کم ہوتی ہے کہ یہاں علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہ ہے۔ اس کے علاوہ 35 فلسطینیوں کو دراندازی اور چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ غزہ حکومت نے جاری خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے اور امریکا، بین الاقوامی ثالثوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ حملے روکنے کے لئے اسرائیل پر دبائو ڈالنے کے لئے فوری کارروائی کریں۔ واضح رہے کہ یہ جنگ بندی گزشتہ دنوں غزہ میں دو سال سے زیادہ اسرائیلی حملوں کے بعد ہوئی تھی جس میں 69000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک، 170000 سے زیادہ زخمی ہوئے اور تقریباً 90 فیصد علاقے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا تھا۔
ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیلی حملے روکنے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ پاکستان نے غزہ میں اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے کیے گئے حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، جن کے نتیجے میں مبینہ طور پر متعدد فلسطینی شہری شہید اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی قانون، متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور حال ہی میں شرم الشیخ میں طے پانے والے امن معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ حملے خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لئے عالمی کوششوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ حکومت پاکستان بین الاقوامی برادری سے دوبارہ اپیل کرتی ہے کہ وہ فوری اقدامات کرے تاکہ اسرائیل کی بے قابو حرکات اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور ہنگامی انسانی قانون کی پاسداری یقینی بنائی جا سکے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ ایک آزاد، خودمختار، قابل عمل اور ہمسایہ ریاست فلسطین قائم کی جائے، جو جون 1967ء کی سرحدوں کی بنیاد پر ہو اور جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔
ایک عرب سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس رہنمائوں نے عرب ثالثوں کو اپنا ایک اہم اور حتمی پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے مبینہ خلاف ورزیاں جاری رہیں تو وہ غزہ میں جاری جنگ بندی کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ دوسری جانب سرد موسم کی وجہ سے بے گھر خاندانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ غزہ کے افق پر چھائے ہوئے سیاہ دھوئیں اور معصوموں کے خون سے رنگی ہوئی زمین آج ایک بار پھر اسی کربناک حقیقت کا سامنا کر رہی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کی اپیلیں اور عالمی اداروں کی قراردادیں اسرائیلی جارحیت کے سامنے ایک بار پھر بے بس ثابت ہو چکی ہیں اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ اسرائیلی فوج نہ صرف جنگ بندی کے اعلان کو یکسر نظرانداز کر رہی ہے بلکہ اپنی عسکری جارحیت کو مزید وسعت دیتے ہوئے غزہ کے ہر گوشے کو میدانِ جنگ میں تبدیل کر چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے عسکری ونگ القسام کے ایک اہم کمانڈر کو شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ محض ایک فرد کی شہادت نہیں بلکہ جنگ بندی کے اس نازک معاہدے پر کھلی ہوئی ضرب ہے جو پہلے ہی کمزور بنیادوں پر کھڑا تھا۔ اس حملے نے غزہ میں جاری سیز فائر کے مستقبل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اور خطے میں امن کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ حماس کی قیادت نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، یہ اعلان خطے کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس اعلان میں چھپی ہوئی بے بسی، اضطراب اور اضطراری فیصلہ سازی دراصل اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے عوام کتنی غیر انسانی صورتِ حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیلی بمباری کا سامنا کرتے ہیں بلکہ انسانی امداد کی عدم دستیابی، پناہ اور سہولیات کے فقدان، بھوک، سردی اور وبائوں جیسے چیلنج بھی ان کے مقدر سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اب تازہ منظر یہ ہے کہ غزہ میں گزشتہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں نے جس طرح شدت اختیار کی ہے، وہ سیز فائر کی روح کے بالکل منافی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ جنگ بندی کے 10 اکتوبر کے اعلان کے بعد سے اب تک 318 فلسطینی شہید اور 788 زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ جنگ، جو اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی، اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے۔ ستر ہزار کے قریب شہادتیں، ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد زخمی، یہ اعداد محض اعداد نہیں بلکہ ایک ایسے المیی کی گہری تصویر ہیں جس کی نظیر جدید انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ سٹی کے مختلف علاقوں میں گھروں کی مسماری کی کارروائیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ فلسطینی سول ڈیفنس کے مطابق بفر زون میں 250 میٹر کا مزید اضافہ کر کے اسرائیل نے سیکڑوں خاندانوں کو ایسی جگہوں پر دھکیل دیا ہے جہاں پانی، بجلی، صفائی اور بنیادی ضروریات زندگی کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ فیصلہ محض علاقوں کے قبضے یا عسکری حکمتِ عملی کا حصہ نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق اس اجتماعی سزا سے ہے جو اسرائیل غزہ کے شہریوں پر عرصہ دراز سے مسلط کیے ہوئے ہے۔ سرد موسم کی شدت نے ان بے گھر خاندانوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ نہ مناسب پناہ گاہیں، نہ کمبل، نہ گرم کپڑے، نہ وافر خوراک۔ یہ لوگ صرف اپنی سانسوں اور امید کے سہارے زندہ ہیں، اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچی یا جنگ بندی کی پاسداری نہ کی گئی تو اموات میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے، خصوصاً بچوں اور ضعیف افراد کے لئے صورتحال نہایت تشویشناک ہے کیونکہ اسرائیلی حملوں، گھروں کی مسماری اور مکمل محاصرے نے غزہ کے شہر کو ایک ایسے کھنڈر میں بدل دیا ہے جہاں اب زندگی کی رمق تلاش کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں بھی اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔ ڈاکٹرز بغیر ادویات، بغیر بجلی، بغیر آلات کے زخموں سے نڈھال بچوں اور عورتوں کا علاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کی خاموشی اور بین الاقوامی اداروں کی بے عملی ایک ایسا باب رقم کر رہی ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ ایک ایسا سنگین عالمی سطح کا المیہ بن چکا ہے کہ جس کو اگر نہ روکا گیا تو آنے والی نسلیں انتقام لینے پر مجبور ہوں گی اور یہ انتقام آج کے ذمہ داروں سے ہی لیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس المیہ کی ذمہ دار وہ عالمی طاقتیں ہیں جو آج محض اپیلوں اور بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں۔ طاقتور ممالک اپنی سیاسی ترجیحات کے بوجھ تلے انسانی جانوں کی قدر بھول چکے ہیں۔ ایک طرف سیکڑوں بے گناہ بچے ملبے تلے دفن ہیں، تو دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے مظالم جاری ہیں۔ عالمی فورمز پر طاقتور فریقوں کے درمیان سیاسی مفادات کی کشمکش جاری ہے۔ یہ کیسی دنیا ہے جو انسانی حقوق کی علمبرداری کرتی ہے مگر فلسطینیوں کے خون سے لکھی فریادیں اس کے لیے بے معنی ہیں؟ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا، وہ اپنی ابتدا سے ہی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار تھا۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی دبا، انتہا پسند عناصر کی جارحانہ سوچ، عسکری کمان کے سخت گیر رویے اور سیاسی قیادت کی کمزور فیصلہ سازی نے اس معاہدے کو کمزور بنیادوں پر چھوڑ دیا تھا۔ دوسری جانب حماس کے لئے بھی یہ معاہدہ آسان نہیں تھا۔ غزہ کے عوام کی حالتِ زار، اسیرانِ جنگ کا مسئلہ، تباہ شدہ انفرا سٹرکچر کی بحالی اور اسرائیلی حملوں کے تسلسل نے حماس پر بھی دبا بڑھایا ہے۔ ایسے میں سیز فائر کی خلاف ورزیاں محض ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہیں کہ اسرائیل اس جنگ بندی کو لمبی مدت تک قائم رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ کارروائیاں بظاہر اسرائیلی دفاع کے نام پر کی جاتی ہیں مگر حقیقت میں یہ طاقت کا غیر انسانی استعمال ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اسرائیل ایک ظالم ملک ہے جس کے ظلم کو طاقت یا پابندیوں کے بغیر نہیں روکا جا سکتا اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں کوئی طاقت ایسی نظر نہیں آ رہی جو اسرائیل کے خلاف طاقت یا پابندیوں کا اطلاق کرے۔





