Column

نئی صف بندی

نئی صف بندی
تحریر: رفیع صحرائی
میں اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کا ہاف ٹرم معاہدے کا انکشاف خالی از علت نہیں ہے۔ نہ ہی اتنا بڑا بیان چیئرمین بلاول اور صدر زرداری کی منشاء کے بغیر دیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے پیچھے یقیناً کچھ نہ کچھ وجہ ہے۔ اب یہ تھیوری سامنے آئی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد سے نکل کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے جا رہی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ اپوزیشن بالکل وہی کردار ادا کرے گی جو کردار 2008ء میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران میاں نواز شریف نے ادا کیا تھا یا 2013ء میں بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران آصف علی زرداری نے ادا کیا تھا۔ ان دونوں پارٹیوں ہی فرینڈلی اپوزیشن ہونے کے طعنے دئیے گئے مگر زرداری اور نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر پوری طرح عمل کیا۔ ظاہر ہے پیپلز پارٹی کا یہ ممکنہ نیا کردار تینوں فریقوں یعنی نواز شریف، صدر زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سے طے کیا ہو گا۔ اس کے بدلے میں پیپلز پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں سہولت مل سکتی ہے کہ یہاں پارٹی کو ازسرِ نو منظم و فعال کیا جا سکے۔ اگر اس تھیوری کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کا کردار ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ واپس لے کر پیپلز پارٹی کو دے دیا جائے گا۔ اس سے یہ ہو گا کہ اہم تقرریوں کے وقت پی ٹی آئی کو جو اہمیت اس وقت حاصل ہے وہ نہیں رہے گی۔ یاد رہے کہ مختلف اداروں کی اہم تقرریاں اپوزیشن اور حکومت یعنی قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت کے بغیر نہیں کی جاتیں۔ مستقبل قریب میں نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری بھی متوقع ہے کیونکہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد عبوری طور پر اس عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی تمام 6نشستیں جیتنے کے بعد جہاں مسلم لیگ ن کافی تکڑی ہوئی ہے وہیں پر حکومتی اتحادی پارٹیوں کے ممبران قومی اسمبلی کو پیپلز پارٹی کے بغیر بھی سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ متوقع فیصلے کو عملی جامہ پہنانا اس لیے بھی آسان ہو گیا ہے کہ ضمنی انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں عمر ایوب کی سیٹ پر ان کی بیگم کی شکست نے پی ٹی آئی کی مقبولیت کے دعووں سے ہوا نکال دی ہے۔ وہاں پر انتخابی عملہ کے پی حکومت کی مرضی کا لگا تھا۔ ریٹرننگ آفیسر کا انتخاب بھی صوبائی حکومت نے کیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ پختونخوا سہیل آفریدی اور عمر ایوب نے خود انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس کے باوجود بھی قریباً چوالیس ہزار ووٹوں سے پی ٹی آئی امیدوار کی شکست کا مطلب یہی ہے کہ عوام اب عمران خان کے طرزِ سیاست سے اتفاق نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے ووٹرز کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات بھی موجود ہو کہ عمر ایوب جس طرح منظرِ عام پر لائے بغیر پردے کے پیچھے رکھ کر اپنی بیگم کو الیکشن لڑوا رہے ہیں، اگر ان کی بیگم کامیاب ہو بھی گئیں تو اسمبلی میں فعال کردار ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے ان کے حلقے کی مثر نمائندگی نہیں کر پائیں گی۔ عمران خان کی سیاست کا انداز ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ 2018ء میں جس طرح پولیٹیکل انجنیئرنگ کر کے انہیں حکومت دی گئی تھی اگر ان میں صلاحیت ہوتی تو وہ اس کا فائدہ اٹھاتے۔ جتنی مقبولیت سیاست میں انہیں ملی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی مقبولیت نے انہیں نقصان پہنچایا۔ اگر فیض حمید کے ساتھ مل کر وہ اپنے اقتدار کے دوام کے لیے نامناسب حربے استعمال نہ کرتے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی شاید اتنی جلدی ایک صفحے پر نہ آتیں۔ مقبولیت اپنی جگہ مگر عمران خان سیاست کے کچے کھلاڑی تھے۔ وہ نواز شریف اور زرداری کے سامنے ٹھہرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ سیاست دان بند گلی میں سے بھی راستہ نکال لیتا ہے، یہ اسٹیبلشمنٹ کے معتوب نواز شریف اور زرداری نے ثابت کر دیا۔ اناڑی کھلے دروازے بھی اپنی عاقبت نااندیشی سے بند کر بیٹھتا ہے یہ عمران خان نے ثابت کر دیا۔ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہو کر بھی عمران خان بہت تگڑے تھے۔ پنجاب اور پختونخوا میں ان کی حکومتیں تھیں۔ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن کر حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے وہ حکومت کی کسی معمولی سی غلطی سے فائدہ اٹھا کر باپ پارٹی یا ایم کیو ایم کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا کر شہباز شریف حکومت کا دھڑن تختہ کر دیتے مگر ان کی جلد باز طبیعت نے ان سے غلط فیصلے کروا دیے۔ انہوں نے نہ صرف قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر وفاقی حکومت کو مضبوط کر دیا بلکہ پرویز الٰہی کے روکنے کے باوجود پنجاب اور پختون خوا کی حکومتوں سے بھی الگ ہو گئے۔ پرویز الٰہی نے سمجھایا تھا کہ مستعفی ہونے کے بعد یہی پنجاب پولیس ہمیں گرفتار کر لے گی جو آج ہماری حفاظت پر مامور ہے مگر عمران خان کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ انہوں نے اسی پنجاب پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد جیل میں پہنچ کر ہی دم لیا۔
عمران خان کی ایک اور بڑی غلطی سیاست دانوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی ضد تھی۔ 9مئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اپنے دروازے غیرمعینہ مدت کی لیے بند کر لیے ہیں۔ یہ دروازے مستقبل قریب میں کھلنے کا امکان نہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر کوئی راستہ نکالتے مگر انہوں نے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی تک بڑھاوا دے کر نہ ختم ہونے والی نفرتوں کو پروان چڑھایا۔ ان کے فالورز کے لیے تو یہ صورتِ حال قابلِ قبول ہو سکتی ہے لیکن عام ووٹرز اس نفرت بھری سیاست کی بھینٹ چڑھنے کو تیار نہیں ہو سکتا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے نکل کر عمران خان نے زوال کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر دیا تھا جو اس مقام پر آ پہنچا ہے کہ قومی سطح پر ان کی پارٹی کے کردار کے خاتمے تک بات آ پہنچی ہے۔

جواب دیں

Back to top button