ColumnImtiaz Ahmad Shad

آئی ایم ایف کا بڑا مطالبہ

ذرا سوچئے
آئی ایم ایف کا بڑا مطالبہ
امتیاز احمد شاد
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان معاشی معاونت کا رشتہ ہمیشہ سے شرائط اور اصلاحات کے تابع رہا ہے۔ معاشی بحران، مالیاتی خسارہ، ادائیگیوں کے عدم توازن اور غیر مستحکم کرنسی کی صورتِ حال کا سامنا کرنے والا پاکستان اکثر عالمی اداروں سے قرض اور مالی امداد حاصل کرتا ہے۔ تاہم اس بار آئی ایم ایف نے محض مالیاتی اصلاحات یا ٹیکس اہداف پر زور دینے کے بجائے ایک نہایت اہم اور بنیادی شرط کو مرکزِ نگاہ بنایا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ایف آئی اے اور صوبائی احتسابی اداروں میں جامع اصلاحات، یہ مطالبہ نہ صرف تکنیکی بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک بڑی تبدیلی کا عندیہ دے رہا ہے۔
پاکستان میں کرپشن ایک دیرینہ مسئلہ ہے، جو صرف معاشی بدحالی کو بڑھاتا نہیں بلکہ اداروں پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ خاص طور پر ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور دیگر صوبائی اداروں پر اکثر سیاسی اثر و رسوخ، ناقص احتساب، اور کمزور قانونی انفرا سٹرکچر کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اس معاملے کو اپنی مالیاتی شرائط کا حصہ بنایا ہے، کیونکہ عالمی ادارے کے نزدیک کرپشن کا خاتمہ مالیاتی استحکام کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جہاں فنڈز کا درست استعمال یقینی بنایا جا سکے، حکومتی ادارے شفافیت کے ساتھ کام کریں، اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار حالات پیدا ہوں۔ غیر ملکی سرمایہ کار بھی اسی وقت اعتماد کرتے ہیں جب اداروں میں احتساب موثر اور آزادانہ ہو۔ اسی پس منظر میں آئی ایم ایف پاکستان سے تقاضا کر رہا ہے کہ ایف آئی اے اور صوبائی احتسابی اداروں کو مضبوط، غیر سیاسی اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
ایف آئی اے پاکستان کا مرکزی تحقیقاتی اور احتسابی ادارہ ہے، جس کی ذمہ داریوں میں مالی جرائم، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، سائبر کرائم اور بدعنوانی کی مختلف اقسام شامل ہیں۔ مگر یہ ادارہ برسوں سے سیاسی مداخلت اور انتظامی کمزوریوں کا شکار رہا ہے۔ افسران کی تعیناتی سے لے کر مقدمات کی پیروی تک، ہر مرحلے پر سیاسی پریشر کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی نظر میں یہ کمزوری نہ صرف کرپشن میں اضافے کا باعث ہے بلکہ حکومتی مالی ڈھانچے کو بھی متاثر کرتی ہے۔
دوسری جانب صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کی کارکردگی بھی زیادہ بہتر نہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں موجود احتسابی اداروں کا ڈھانچہ نہ صرف پرانا ہے بلکہ پیشہ ورانہ مہارت اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی محروم ہے۔ بیشتر مقدمات سیاسی نوعیت کے نظر آتے ہیں جبکہ اصل کرپشن سے متعلق کارروائیاں سست روی کا شکار رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ صوبائی اداروں کی تنظیمِ نو، سافٹ ویئر اپ گریڈیشن، فرانزک سہولیات، اور خودمختاری کو بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں۔
آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ بظاہر داخلی حکومتی معاملات میں مداخلت محسوس ہو سکتا ہے، مگر عالمی ادارے اسے ایک ناگزیر عمل سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ عالمی قرض دہندگان اب مالیاتی معاونت صرف اس صورت میں دینے پر آمادہ ہیں جب اس کے ساتھ گورننس میں ٹھوس اور قابلِ پیمائش تبدیلیاں بھی یقینی بنائی جائیں۔ کرپشن نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں کی رفتار، عوامی خدمات کی فراہمی اور معاشی اعتماد پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔
پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کی کوششیں مسلسل جاری رہی ہیں مگر بدقسمتی سے یہ کوششیں ادارہ جاتی تبدیلی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ کرپشن کا مسئلہ صرف چند افراد یا گروہوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ نظام میں پھیلا ہوا ایک اسٹرکچر ہے جسے ختم کرنے کے لیے قانون کی بالادستی، شفافیت اور سیاسی غیر جانبداری ناگزیر ہیں۔ ایف آئی اے اور صوبائی اداروں میں اصلاحات اسی بڑے مقصد کا حصہ ہیں۔
ان اصلاحات میں سب سے اہم بات اداروں کی خودمختاری ہے۔ جب تک احتسابی ادارے آزادانہ فیصلے نہیں کر سکیں گے، سیاسی دبا سے آزاد نہیں ہوں گے، اور ان کی تعیناتیوں میں شفافیت نہیں ہوگی، کرپشن کے خلاف مثر کارروائی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا زور اس بات پر بھی ہے کہ تحقیقاتی نظام جدید تکنیکی بنیادوں پر قائم ہو۔ فرانزک لیبارٹریوں کا قیام، ڈیجیٹل ریکارڈز کا تحفظ، جدید سافٹ ویئرز کا استعمال اور افسران کی تربیت اصلاحات کا اہم حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹس میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ اور غیر قانونی دولت کی منتقلی جیسے مسائل ملکی معیشت کو براہِ راست نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جب تک ادارے ان جرائم کو روکنے میں مثر کردار ادا نہیں کرتے، ملکی معاشی ساکھ بہتر نہیں ہوگی۔ اسی طرح ٹیکس چوری کے خلاف بھی ایف آئی اے کا کردار اہم ہے، کیونکہ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ اگر ایف آئی اے اور متعلقہ ادارے مضبوط ہوں تو ٹیکس وصولیوں میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حکومتی حلقوں میں اس مطالبے کا ردِعمل ملا جلا ہے۔ کچھ افراد اسے مثبت قدم سمجھتے ہیں کیونکہ مضبوط احتسابی ادارے قومی مفاد میں ہیں، جبکہ کچھ اسے خودمختاری پر دبائو کے مترادف تصور کرتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں اصلاحات کے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ شفافیت، احتساب اور گورننس کی بہتری وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط معیشت استوار ہوتی ہے۔
بہرحال یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اصلاحات کرنا ایک وقتی حل نہیں بلکہ مستقبل کی معاشی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان واقعی کرپشن کے ناسور سے چھٹکارا چاہتا ہے تو اسے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ایف آئی اے اور صوبائی اداروں میں اصلاحات نہ صرف عالمی اداروں کی شرط ہے بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنی گورننس کو بہتر بنائے، عوامی اعتماد بحال کرے اور ایک مستحکم معاشی مستقبل کی طرف قدم بڑھائے۔

جواب دیں

Back to top button