میٹھا میٹھا ہپ

میٹھا میٹھا ہپ
تحریر: رفیع صحرائی
چیئرمین سینٹ و سنیئر رہنما پاکستان پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی نے ’’ انکشاف‘‘ کیا ہے کہ حکومت سازی کے وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیانی آدھی آدھی مدت کے لیے حکومت کا فارمولا طے ہوا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے ہاف ٹرم سے انکار کیا تھا تاہم میرے خیال میں معاہدہ اب بھی موجود ہے۔ وہ خود ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھے انہیں بتایا گیا کہ اس پر اتفاق ہوا ہے۔ جس میں وزیرِ اعظم، اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کی مدت نصف طے کرنے کی بات ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت میں شیئرنگ کے یہ اصول اب بھی لیڈرشپ کے درمیان موجود ہیں اور یہ مکمل طور پر لیڈرشپ کا اندرونی معاملہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے یہ معاہدہ کیوں سامنے نہیں لایا گیا۔ اس کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد ہی یہ معاہدہ کیوں منظرِ عام پر لایا گیا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آزاد کشمیر میں حکومت سازی سے پہلے یہ بات منظرِ عام پر لائی جاتی تو ممکنہ طور پر ن لیگ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت سازی میں مدد نہ کرتی یا اس میں تاخیر کر دیتی۔ عام تاثر یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں حکومت سازی میں پہلے بھی اسی لیے تاخیر ہوئی کہ حکومت اور مقتدرہ 27ویں ترمیم کو پاس کروانا چاہتی تھیں اور انہیں احساس تھا کہ پیپلز پارٹی اس ترمیم کو پاس کروانے کے لیے شرائط پیش کرے گی۔ جونہی 27ویں ترمیم پاس ہوئی پیپلز پارٹی کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی گئی۔ اسے آزاد کشمیر کی حکومت مل گئی۔
یوسف رضا گیلانی کا ہاف ٹرم کا موجودہ بیان بلاول بھٹو اور صدر زرداری کی اجازت یا خواہش کے بغیر یقیناً نہیں دیا گیا۔ اس میں ان کی رضا بھی شامل ہو گی لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ وہ کون سا نیا مطالبہ ہے جو پیپلز پارٹی حکومت سے منوانا چاہتی ہے۔
میرے خیال میں پیپلز پارٹی کا مطالبہ وہی پرانا ہے کہ اسے پنجاب میں پاورشیئرنگ چاہیے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ وفاق میں حکومت سازی اس صوبے کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن یہ ایسا سومنات ہے جو بلاول کے بار بار حملوں کے باوجود فتح نہیں ہو رہا۔ اب وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف کی گورننس اور کارکردگی نے پیپلز پارٹی کو پریشان کر دیا ہے۔ اسے پنجاب میں اپنا مستقبل مزید تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ادھر مریم نواز بھی ممکنہ طور پر ن لیگ کی مستقبل میں وزیرِ اعظم کی امیدوار ہوں گی۔ بلاول بھٹو زرداری اس منصب کے لیے ان کے روایتی حریف ہوں گے۔ وہ بلاول کو کوئی سپیس دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
دوسری طرف یوسف رضا گیلانی نے بھی غالباً آدھا سچ بولا ہے۔ انہوں نے وزیرِ اعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی ہاف ٹرم کی بات تو بتا دی ہے، لیکن انہوں نے صدرِ مملکت کی مدت کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی پنجاب اور پختونخوا کے گورنرز کے بارے میں کچھ بتایا ہے کہ وہ کتنی مدت بعد تبدیل ہوں گے کیونکہ یہ عہدے بھی پیپلز پارٹی کو حکومت سازی کے معاہدے کے تحت ہی ملے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے وزارتیں تو قبول نہیں کیں لیکن بہت سے آئینی اداروں کی سربراہی ضرور حاصل کر رکھی ہے۔ اب اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے تو اصولی طور پر اسے ملک کی صدارت، دو صوبوں کی گورنرشپ اور ان تمام آئینی عہدوں سے دست بردار ہونا ہو گا جو اس کے پاس موجود ہیں۔ سیّد یوسف رضا گیلانی نے ان میٹھے عہدوں کا ذکر نہیں کیا جنہیں پیپلز پارٹی نے ’’ ہپ‘‘ کیا ہوا ہے۔
دراصل حکومت سازی کے وقت بلاول اور زرداری نے بڑی سمارٹ گیم کھیلی تھی۔ انہیں علم تھا کہ حکومت کی گاڑی کو بہت سے گڑھوں کا سامنا ہو گا۔ پی ٹی آئی مسلسل احتجاج کے ذریعے حکومت کے سامنے ہر ممکنہ دیوار کھڑی کرے گی۔ ایسی صورت میں اگر حکومت چلی بھی گئی تو آئینی عہدوں کو خطرہ نہیں ہو گا۔ ان کی توقع کے برعکس شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان مثالی ہم آہنگی نے کامیابی کے ساتھ راستے کے کانٹے چن کر معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈال دیا۔ رہی سہی کسر پاک بھارت جنگ نے پوری کر دی۔ جنگ میں فتح کے بعد حکومت کا وقار دنیا بھر میں بڑھ گیا۔ کامیاب خارجہ پالیسی نے عالمی طاقتوں کو پاکستان کے قریب کر دیا۔ اندرونِ ملک پاکستان مسلم لیگ ن کی مقبولیت بھی بڑھ گئی جس کا ثبوت حالیہ ضمنی انتخابات میں تیرہ میں سے بارہ سیٹوں پر اس کی کامیابی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کے بغیر باقی اتحادیوں کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ صورتِ حال پیپلز پارٹی کے لیے الارمنگ ہے۔ بلاول بھٹو گزشتہ تین سال میں ہر بجٹ کے موقع پر مینگنیوں والا دودھ دیتے آئے ہیں۔ اب ان کی بجٹ کے موقع پر شرائط پیش کر کے حکومت کو پریشان کرنے والی پوزیشن برقرار نہیں رہی۔ اب حکومت اسمبلی سے بجٹ سمیت کوئی بھی بل پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر بھی پاس کروا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت یقیناً بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ سندھ اور آزاد کشمیر میں حکومت ہونے کے باوجود پنجاب اور وفاق میں اس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ سمارٹ گیم کھیلنے والوں کے ساتھ نواز شریف نے سمارٹ گیم کھیل دی ہے۔ 2022ء میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپنی پارٹی کے غیرمقبول ہونے کے ڈر سے وزارتِ عظمیٰ کو ٹھکرانے والے بلاول بھٹو نے خود کو اس منصب سے بہت دور کر لیا ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنی اور اپنی پارٹی کی نیک نامی اور ساکھ کو دائو پر لگا کر شہباز شریف کو 2022ء میں وزیرِ اعظم بنوایا تھا۔ اس وقت وزارتِ عظمیٰ کا منصب حقیقت میں کانٹوں کا تاج تھا۔ تین سال کی ان تھک محنت اور کوشش کے بعد جب شہباز شریف نے سارے کانٹے پلکوں سے چن لیے ہیں تو اب وزارتِ عظمیٰ کو پھولوں کی سیج دیکھ کر بلاول زرداری کی خواہش یوسف رضا گیلانی کے منہ سے نکل رہی ہے۔ کانٹوں سے دامن چھڑانے کے بعد اب پھولوں کی تقسیم کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ کڑوا کڑوا تھو آپ کر چکے ہیں، اب میٹھا میٹھا ہپ کوئی نہیں کرنے دے گا۔ آپ کو اپنا حصہ مل چکا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کی خواہش کا اظہار اگر پنجاب میں پاور شیئرنگ کا مطالبہ ہے تو اس کا بھی پورا ہونا ممکن نہیں۔ آپ موت دکھا کر بخار پر راضی کرنا چاہتے ہیں تو یاد رکھئے کہ اب آپ بخار دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔




