ColumnTajamul Hussain Hashmi

دو چانس باقی ہیں

دو چانس باقی ہیں
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
وہ 21صدی کی زوال پذیر معاشیتوں پر ریسرچ کر رہا ہے، چند دن کیلئے پاکستان آیا اور ہمارے تینوں بڑے شہروں میں وقت گزار کر واپس امریکا چلا گیا، دوست نے اس سے ملاقات کرائی ۔ جاوید چودھری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے آرتھر سے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہنا تھا ’’ پاکستان کے لوگ بڑے شاندار ہیں لیکن ان کے حالات بہت برے ہیں ‘‘، میں نے آرتھر سے پوچھا کہ حالات سے کیا مراد ہے ۔ کہنے لگا ’’ حالات عمومی رائے کو کہتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر اور باہر اس ملک کے بارے میں رائے منفی ہو گئی ہے‘‘ ۔ آرتھر کہنے لگا میرے مطالعہ کے مطابق یہ قوموں کے زوال کی نشانی ہے، کیا ہم زوال کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ؟ آرتھر نے نفی میں سر ہلایا اور بولا ’’ نہیں ابھی دو چانس باقی ہیں ‘‘، ایک سیاست دان اور دوسری قوم ۔ آرتھر کہنے لگا میری ریسرچ کے مطابق قدرت کسی قوم کو تباہ کرنے سے قبل اس کے سیاست دانوں کو اپنے اختلافات ختم کرنے، مل بیٹھنے اور اخلاص کے ساتھ کوشش کا آخری موقع ضرور دیتی ہے۔ اگر سیاست دان یہ موقع ضائع کر دیں تو قدرت اس کے بعد عوام کے سرہانے ڈھول بجاتی ہے تاکہ عوام اٹھیں اور ملک کو بچانے کی کوشش کریں، اگر عوام بھی قدرت کو مایوس کر دیں تو پھر وہ ملک معاشی، اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آپ کے پاس ابھی دو لائف لائن ہیں ‘‘۔ میں نے پوچھا کہ قدرت ایسا کیوں کرتی ہے۔ آرتھر نے تھوڑی خاموشی کے بعد جواب دیا’’ مجھے نہیں معلوم لیکن دس ہزار سال کی تاریخ میں قدرت کی طرف سے دنیا کی تمام قوموں کو یہ چانس ملتے دیکھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ قدرت ایسا کیوں کرتی ہے ، لیکن کرتی ضرور ہے، قدرت انسان ، معاشرے اور ملکوں کو ریڈ سنگل ضرور دیتی ہے، بس اس کی سمجھ ہونی چاہئے ‘‘۔
اس وقت قدرت نے ہماری سیاست کی تمام حجت پوری کر دی ہیں ۔ اللّہ نے فوج کو سیاست سے الگ کر دیا ہے۔ پاکستان کی 70سال تاریخ میں پہلی بار فوج سیاست دانوں کے پیچھے کھڑی ہے، اس وقت قدرت نے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی سپورٹ کرنے کا چانس دیا ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں ماسوائے ایک جماعت کے باقی سب ایک پیلٹ فارم پر ہیں ۔ سیاست دانوں کو ملک بچانے اور معاشی صورتحال کی بہتری کا موقع بھی میسر ہے۔ خان حکومت کے بعد ملک ڈیفالٹ پر کھڑا تھا۔ عجیب افراتفری تھی، ابھی بھی صورت حال بہتر نہیں ہے، دہشتگردی ابھی بھی جاری ہے۔ اب اگر سیاست دان ملک کی خاطر اکٹھے نہیں ہوتے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہیں گے تو یہ آخری لائف لائن بھی ختم کر بیٹھیں گے۔
اتحادی امریکا کے صدر ٹرمپ سے سیکھ لینا چاہئے، ممدانی کے خلاف ہارڈ ٹاک رہی، لیکن گزشتہ دنوں صحافی کے سوال پر ٹرمپ نے ممدانی کو مشکل صورتحال سے باہر نکالا، لیکن ہمارے ہاں سیاسی لوگ ایک دوسرے کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ آرتھر کے مطابق سیکنڈ لائف لائن عوام ہیں، عوام نے ہر دور میں سیاست دانوں کا ساتھ دیا ۔ نواز شریف کو تین دفعہ وزیر اعظم بنایا، شہباز شریف اپنی دوسری باری پوری کر رہے ہیں، آصف علی زرداری صاحب دوسری بار صدارت میں ہیں۔ دیگر رہنما بھی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کی کمی کے با وجود عوام ہر مشکل حالات میں ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر عوام نے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا بند کیا تو پھر قدرت کا عمل شروع ہو جائے گا ۔ میں سمجھ رہا ہوں کہ قدرت کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ قدرت کے عمل کو سمجھنے کیلئے فرعون کے خدائی دعوے کی تاریخ دیکھنی ہو گی۔ فرعون کی سمجھ داری اس کی عقل مندی نے مصر سلطنت کا نقشہ بدل دیا تھا۔ تاریخ بھی فرعون کی عقل مندی کی تعریف کرتی ہی۔ آسمانی صحائف سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون کی عقل مندی اس کے مشیروں میں پوشیدہ تھی۔ فرعون نے سمجھ دار، عقل مند لوگوں اپنے اردگرد جمع کئے رکھے تھے۔ اس کے خدائی دعویٰ، اس کے تکبر سے اللّہ ناراض ہوا تو اس نے ایک، ایک کر کے سارے مشیر واپس اٹھا لئے۔ جب حضرت موسیٰ ٌکا فرعون کے ساتھ مقابلہ ہوا تو اس وقت سارے کے سارے مشیر، وزیر ختم تھے، بس مفاد پرست، کم عقل اور چالاک لوگ رہ گئے تھے۔ جب فرعون اپنے تکبر میں بنی اسرائیل کے پیچھے بھگا تو اسے عقل دینے والا، اسے ٹھنڈا کرنے والا کوئی مشیر، وزیر نہیں تھا، آخر کار وہ دریائے نیل میں ڈوب کر مر گیا۔
قدرت کا نظام بڑا خوب صورت ہے، جب وہ کسی بندے سے خوش ہوتی ہے تو اس کے اردگرد اچھے، نفیس اور ایماندار لوگوں کی تعداد بڑھا دیتی ہے اور جب وہ ناراض ہوتی ہے تو اس سے اچھے صاف گو، شریف، سمجھ دار لوگوں کو ہٹا دیتی ہے اور اٹھائی گیر، جھوٹے، مکار لوگ اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ کم ظرف لوگ، مشیر وزیر اس کو فرعون جیسے انجام کی طرف دھکیل دیتے ہیں، اس کو سمجھ نہیں آتی، وقت گزار جاتا ہے۔ قدرت کا یہ اصول کسی فرد، بادشاہوں تک محدود نہیں، بلکہ ملک بھی اسی اصول کے تحت چل رہے ہوتے ہیں۔ اللّہ جن ملکوں پر مہربان ہوتا ہے وہاں اچھے، قابل اور تعلیم یافتہ افراد کو بڑھا دیتا ہے اور جن ملکوں یا اداروں سے قدرت ناراض ہوتی ہے وہاں جنرل مشتاق، قدیر خان، بے نظیر بھٹو جیسے قابل لوگوں کو واپس بلانا شروع کر دیتا ہے، پاکستانی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ کیا اللّہ ہم ناراض ہے جو ہمارے مسائل کم نہیں ہو رہے۔

جواب دیں

Back to top button