Column

اپنے کریش پر توجہ دیں

اپنے کریش پر توجہ دیں
صورتحال
سیدہ عنبرین
مسافر جہاز ہو یا ایئر فورس کا لڑاکا طیارہ، کسی بھی سبب زمین بوس ہو جائیں تو مکمل تباہی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مسافر طیارے کے گرنے کے بعد کچھ مسافروں کے زندہ بچنے کی امید ہوتی ہے، معجزے ہوتے دیکھے گئے لیکن لڑاکا طیارے کا پائلٹ اگر بروقت گرتے جلتے طیارے سے باہر نہ نکل سکے تو پھر اس کے زندہ بچنے کی امید نہیں ہوتی۔ بھارتی لڑاکا طیارہ دبئی کے ایئر شو میں فضائی کرتب دکھاتے ہوئے گرا اور تباہ ہو گیا، اس کے پائلٹ نے آخری لمحوں میں نکلنے کی کوششیں کی یا نہیں، اس کے بارے میں اب تو پیچھے کہانیاں رہ گئی ہیں، وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ طیارے کے فضا میں بلند ہونے کے منظر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے طیارہ اپنی رفتار سے فضا میں بلند ہوا، اس نے ایک کامیابی سے، دو نیم قلابازیاں کھائیں، وہ اوپر کی طرف سیدھا ہوا، پھر لوپ بنانے کیلئے گھوما، لیکن مکمل طور پر نہ اٹھ سکا، جو بھی خرابی پیدا ہوئی اسی وقت ہوئی، یوں لگتا ہے جیسے اس کے انجن نے کام کرنا بند کر دیا ہو یا انجن کی طاقت ختم ہو گئی ہو۔ طیارے ایک دھماکے سے زمین سے ٹکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔ بھارتی ونگ کمانڈر نمنش سیال بھی راکھ بن گئے۔ ہندو مذہب کے مطابق انہیں بعد از مدت نذر آتش کیا جانا تھا، جس کے بعد سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے، مرنے والے کی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے، جبکہ کچھ راکھ ایک بوتل میں بند کر کے مرنے والے کے گھر والے اس کی ان چیزوں کے ساتھ محفوظ کر لیتے ہیں جو وہ اپنی زندگی میں استعمال کرتا رہا ہو۔ ونگ کمانڈر نمنش کی باقیات ہمہ چل پردیش کے کانگرہ ایئر پورٹ پر پہنچائی گئیں، جہاں ان کی اہلیہ افشاں موجود تھیں، وہ خود بھی بھارتی ایئر فورس میں ونگ کمانڈر ہیں۔ انہوں نے آنسوئوں سے تر چہرے کے ساتھ اپنے مرحوم شوہر کے تابوت کو آخری سلامی دی۔ پاکستانی میڈیا میں بھارتی طیارے کے کریش کے معاملے کو خاصی جگہ دی گئی اور پاکستان میں ہونے والے ایک بہت بڑے کریش سے توجہ ہٹانے کی کوششیں بھی نظر آئیں۔ یہ پاکستانی معیشت کے کرپشن کے کریش کے حوالے سے تھا۔
جس پر گزشتہ کئی برسوں سے پردہ ڈالنے کی کوششیں جاری تھیں، تواتر سے بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جبکہ رحیم چینج کے وقت 6فیصد سے زیادہ کی گروتھ کا نصف بمشکل حاصل ہو سکا، قرضے حاصل کرنے کی دوڑ جاری رہی، سیکڑوں فیکٹریاں بند ہوتی رہیں۔ چیمبرز آف کامرس کے مختلف عہدیدار، آپٹما کے ذمہ دار راہنما مختلف اوقات میں حقیقت حال بیان کرتے رہے، لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ مہنگی بجلی اور مہنگی گیس نے صنعتکاروں کو اپنے یونٹ بند کرنے پر مجبور کر دیا، وہ ملک چھوڑ گئے، جو کہیں نہ جا سکتے تھے وہ تالے لگا کر گھروں میں بیٹھ کر اچھے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ پٹرول عالمی منڈی میں کم قیمت پر ملنے لگا تو بھی پاکستانی صارفین کو وہ ریلیف نہ مل سکا جو ان کا حق تھا، ٹیکس در ٹیکس کے نظام نے صارفین کی کمر توڑ دی، برآمدات بڑھانے کے دعوے تو بہت ہوئے، اہداف بھی مقرر ہوتے رہے، لیکن تین برس میں کوئی ایک ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ذمہ دار ادارے کی ناکامی کا ثبوت یہ تھا کہ ہر سال وہ اپنے ہدف سے پیچھے نظر آیا، لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انہیں حسن کارکردگی کے انعام کے طور پر ایک بڑا مالی فائدہ دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
معیشت سی متعلق ہر شعبے میں ناکامی تو ایک طرف، کرپشن روکنے کی طرف توجہ نہ دی گئی، کرپشن کے پودے تناور درخت بن گئے، خوب ثمر بار ہوئے، فیض یاب ہونے والوں کے حمام میں کون سا طبقہ ہے جو ننگا نظر نہیں آیا، مگر ذمہ داروں نے ایسی عینک لگا رکھی تھی جس میں سب کچھ مثبت نظر آتا رہا، آنکھیں اس وقت بھی نہ کھلیں جب آئی ایم ایف کی تیار کردہ رپورٹ کے چرچے دنیا کے ہر کونے میں پہنچ گئے۔ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس حوالے سے وکٹری سٹینڈ پر پہلی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔
آئی ایم ایف ایک ذمہ دار عالمی ادارہ ہے، جو دنیا بھر کے ملکوں کو قرض فراہم کرتا ہے، اس ادارے نے یہ رپورٹ بہت دیکھ بھال کر جاری کی ہے۔ شاید یہ رپورٹ کسی نہ کسی طور پر رکوا لی جاتی، لیکن اندازہ ہوتا ہے اب آئی ایم ایف کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے، یہ ادارہ اپنے دیئے گئے قرضوں کی وصولی میں دلچسپی رکھتا ہے، اسے عام پاکستانی کے مسائل، قوت خرید میں کمی، غربت کی لکیر سے نیچے جانے یا اوپر جانے میں دلچسپی کم ہوتی ہے، لیکن اس ادارے کے ایک ڈائریکٹر کی طرف سے الزام تراشیوں کا جواب دینے کیلئے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ ہم غریبوں کو ریلیف دینے اور مراعات یافتہ طبقے پر نئے ٹیکسوں کی بات کرتے ہیں، لیکن حکومت پاکستان ایسا نہیں کرتی، اس کی ترجیحات مختلف ہیں۔
کرپشن و رشوت کے بعد دوسرا اہم معاملہ سمگلنگ کا ہے، جس پر خاطر خواہ کنٹرول نہ کیا جا سکا، ہم ایک ایک ارب ڈالر کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے لیٹے نظر آتے ہیں، مہنگی شرائط پر قرض حاصل کرتے ہیں، اگر صرف سمگلنگ روک لیں اور کرپشن پر قابو پا لیں تو کسی عالمی ادارے سے قرض نہ لینا پڑے۔ کاغذوں میں افغانستان سے تجارت دو بلین ڈالر ہے، لیکن درحقیقت ایسا نہیں، یہی معاملہ ایرانی بارڈر کا ہے۔ ایرانی تیل کی کہانی تو پرانی ہوئی، اب تو سرحد کے ساتھ ساتھ اور بالخصوص کوئٹہ کے بازار ایرانی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔ سگریٹ کی امپورٹ کی اجازت نہیں، لیکن پاکستان میں ہر شہر کی نصف سے زائد دکانوں پر بیش قیمت سگریٹ، کپڑا، سامان، میک اپ وافر مقدار میں نظر آئے گا۔
پاکستان میں کرپشن کے حوالی سے انٹرنیشنل گواہی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پچپن بلین ڈالر یعنی پچپن ہزار بلین روپے سے زیادہ کی کرپشن ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ہوشربا ہیں، لیکن کرپٹ ترین عناصر آج بھی تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان اللہ کے نام پر بنا ہے، اسے اللہ چلا رہا ہے اور اللہ ہی اسے تا قیامت چلاتا رہے گا۔ کسی کا دھیان ادھر نہیں ہے کہ متعدد انبیاء کرامٌ کے ہوتے ہوئے ان کی قومیں تباہ ہو گئیں۔ ان پر اللہ کا عذاب ان کے اعمال کے سبب نازل ہوا۔ ہر زمانے کی تباہی اور عذاب اس دور کے مطابق ہوتے ہیں، نئے دور کے عذاب نئے طرز کے ہوں گے، جن میں حصے بخرے ہونا، صدیوں کی غلامی بھی ہو سکتے ہیں، بھارتی ونگ کمانڈر کی آخری رسومات ختم ہوئیں، اب اپنی معیشت کی میت پر توجہ دیں، اسے دفنانا ہے یا نذر آتش کرنا ہے۔ اپنے کریش پر توجہ دینا ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button