Column

پاکستان کی اصل بدقسمتی: دبئی، گرے اکانومی، چین کا اثر اور منی لانڈرنگ

پاکستان کی اصل بدقسمتی: دبئی، گرے اکانومی، چین کا اثر اور منی لانڈرنگ
ڈاکٹر اے اے جان
تعارف: معیشت کو لگی ہوئی بیماری
پاکستان کی معیشت ہمیشہ سے ’’ بحران زدہ‘‘ کہلائی ہے۔ کوئی اسے کرپشن، کوئی نااہلی، اور کوئی بلیک اکانومی قرار دیتا ہے۔ مگر اصل خرابی ان دونوں سے زیادہ گہری ہے۔ ہماری معیشت کا سب سے خطرناک پہلو گرے اکانومی ہے، یعنی وہ شعبہ جو بظاہر قانونی دکھائی دیتا ہے مگر اپنے اندر بے پناہ غیر شفافیت، دستاویزی کمزوری اور غیرقانونی سرمائے کے بہائو کو چھپائے بیٹھا ہے۔ یہ گرے اکانومی دبئی کے مالیاتی و ریئل اسٹیٹ نظام سے جڑی ہوئی ہے، جہاں پاکستانی سرمایہ سیکڑوں ارب ڈالرز کی صورت میں ’’ پارک‘‘ کیا جا چکا ہے۔ اس پورے عمل میں چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن، امپورٹ پر انحصار، اور مقامی صنعت کی تباہی نے مزید ایندھن ڈالا۔ پاکستان کی موجودہ معاشی بدحالی صرف بلیک منی، کرپشن یا ٹیکس چوری کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی معاشی تعلقات، مالی بہائو کی ساخت، منی لانڈرنگ اور سرمایہ جاتی بے ضابطگیوں کا مجموعہ ہے۔
گرے اکانومی کیا ہے؟
بلیک اکانومی کے برعکس، گرے اکانومی ان سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے جو جزوی طور پر قانونی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر: قانونی کاروبار مگر غلط انوائسنگ (Mis-invoicing)قانونی برآمد مگر بیرون ملک اثاثہ چھپانے کے لیے کم قیمت دکھانا، قانونی سرمایہ کاری مگر غیررپورٹڈ منافع، قانونی آمدنی مگر غیر قانونی چینلز ( حوالہ ؍ ہنڈی) سے منتقلیگرے اکانومی بلیک اکانومی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ ریاستی نظام کے اندر رہ کر ہی نظام کو کھوکھلا کرتی ہے۔ پاکستان کی غیر رسمی معیشت (Informal Economy)کے بارے میں مختلف تحقیقی اداروں، جیسے World Economics, IMF, PIDE کے مطابق اس کا حجم30 سے 59فیصد تک GDPکے درمیان ہے۔
یعنی اگر پاکستان کا مجموعی GDPتقریباً 350ارب ڈالر مانا جائے تو کم از کم 100سے 200ارب ڈالر سالانہ وہ معیشت ہے، جو رسمی ریگولیٹری نظام سے باہر ہے۔ پاکستان کی ٹیکس ٹو GDPشرح آج بھی 10تا 11فیصد کے درمیان ہے، جبکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اوسطاً 18تا20فیصد ہے۔ یہ فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ دولت پیدا ہو رہی ہے مگر ریاست تک پہنچ نہیں پا رہی۔
دبئی: پاکستانی دولت کا قبرستان
دبئی صرف پاکستانیوں کے لیے نوکری یا سیاحت کی جنت نہیں، بلکہ ایک ایسا معاشی قبرستان بن چکا ہے جہاں پاکستانی دولت دفن ہو رہی ہے۔ SBPکے مطابق 2023ء میں UAEسے پاکستان آنے والی ریمیٹینس تقریباً 5ارب ڈالر تھیں۔ یہ رقوم بظاہر پاکستانی معیشت کے لیے مثبت ہیں۔ مگر ان رقوم کے ساتھ ساتھ غیررپورٹڈ سرمایہ کاری، آف شور کمپنیز اور جائیدادوں کا سیلاب دبئی میں موجود ہے۔
دبئی میں پاکستانیوں کے اثاثے:
پاکستانی میڈیا رپورٹس اور FATFکی دستاویزات کے مطابق: پاکستانی شہریوں کے دبئی میں تقریباً 20تا 25ہزار ریئل اسٹیٹ یونٹس ہیں۔ ان کی مجموعی قیمت 80تا 100ارب ڈالر کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے 60فیصد اثاثے ایسے پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے انہیں ’’ آف شور کمپنیز‘‘ کے نام پر خریدا۔ یعنی پاکستانی سرمایہ دبئی میں ’’ قانونی طریقے‘‘ سے موجود ہے، مگر اس کا سورس غیر واضح ہے ، یہی گرے اکانومی کی اصل تعریف ہے۔
منی لانڈرنگ کے طریقے، دبئی کنکشن
منی لانڈرنگ کے تین بنیادی مراحل ہیں:
1۔Placement: پیسہ نظام میں داخل کیا جاتا ہے ، عام طور پر نقدی یا جعلی انوائسز کے ذریعے۔
2۔Layering: پیسہ مختلف بینکوں، کمپنیوں اور ملکوں میں گھما کر سورس چھپایا جاتا ہے۔
3۔ Integration: اب یہی پیسہ قانونی نظر آنے لگتا ہے، مثلاً دبئی میں ریئل اسٹیٹ یا اسٹاک خریدنا۔
پاکستان سے باہر رقم کیسے جاتی ہے؟
1۔ اوور انوائسنگ: درآمد کی قیمت بڑھا کر زیادہ رقم باہر بھیجی جاتی ہے۔
2۔ انڈر انوائسنگ: برآمد کی قیمت کم دکھا کر منافع دبئی یا چین میں رکھا جاتا ہے۔
3۔ ہنڈی ؍ حوالہ: رقم دبئی میں جمع کرائی جاتی ہے، پاکستان میں اس کے برابر رقم کسی اور کو دی جاتی ہے، بغیر کسی سرکاری ریکارڈ کے۔
4۔ جعلی قرضے یا سرمایہ کاری: دبئی یا سنگاپور میں ایک فیک کمپنی بنا کر ’’ سرمایہ کاری‘‘ کے نام پر پیسہ باہر نکالا جاتا ہے۔
FATFکی Mutual Evaluation Report (2022)میں واضح لکھا ہے کہ پاکستان میں Trade-Based Money Laundering (TBML)سب سے بڑا خطرہ ہے۔
چین اور پاکستان ، معاشی دوستی یا عدم توازن؟
چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ مگر یہ رشتہ یک طرفہ ہے۔ تجارتی توازن2023ء میں پاکستان نے چین سے تقریباً 18ارب ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ جبکہ برآمدات صرف 5ارب ڈالر رہیں۔ یعنی تجارتی خسارہ 15ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔
اس کا اثر:
1۔ مقامی صنعت دبائو میں: چینی مصنوعات کی سستی قیمتوں نے مقامی مینوفیکچرنگ کو مفلوج کیا۔
2۔ روزگار میں کمی: جب لوکل فیکٹریاں بند ہوئیں تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے۔
3۔ قرض کا بوجھ: CPECمنصوبوں کے لیے لیے گئے قرضے، جو زیادہ تر چینی بینکوں سے تھے، اب کرنسی اور ادائیگیوں پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔
چین اور گرے اکانومی:
چینی کاروباری ماڈل میں ’’ پراجیکٹ فنانسنگ‘‘ کا حصہ زیادہ ہے ، جس میں مقامی ٹھیکیداروں کو ذیلی سطح پر ٹھیکے ملتے ہیں۔
یہاں اوور انوائسنگ، سب کنٹریکٹنگ، اور کِک بیکس کے ذریعے بہت سا پیسہ غیر رسمی طریقوں سے باہر نکلتا ہے۔پاکستان میں CPECسے وابستہ تقریباً 25ارب ڈالر کے منصوبے ایسے ہیں جن کے اخراجات اور ادائیگیاں مکمل شفاف نہیں۔

جواب دیں

Back to top button