مدارس پر الزام تراشی، سیاسی بیانات اور حقیقت

مدارس پر الزام تراشی، سیاسی بیانات اور حقیقت
ثناء اللہ مجیدی
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا حالیہ بیان مدارس کے بارے میں ایک بار پھر وہ بحث چھیڑ گیا ہے جو ہمارے معاشرتی اور سیاسی ماحول میں کئی برسوں سے بار بار اٹھتی اور دبتی رہتی ہے۔ مدارس کی خدمات، کردار اور تاریخی اہمیت سے صرفِ نظر کرکے محض چند سیاسی جملوں اور غیر مصدقہ دعوئوں کی بنیاد پر انہیں مشکوک بنانا نہ صرف بددیانتی ہے بلکہ معاشرتی عدم توازن کو ہوا دینے کے مترادف بھی ہے۔ خواجہ آصف نے یہ دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ہزاروں مدارس قبضہ شدہ زمینوں پر قائم ہیں۔ یہ بیان نہ صرف حقائق سے متصادم ہے بلکہ اس طرزِ فکر کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس میں مدارس کو بار بار بلاوجہ ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ اس ملک میں تجاوزات کا مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں غیر قانونی مارکیٹیں، طاقت ور طبقوں کی قبضہ مافیا، غیر ضابطہ ہائوسنگ سوسائٹیاں، سرکاری زمینوں پر قائم پلازے اور بے شمار ایسے معاملات موجود ہیں جو برسوں سے انتظامیہ کے سامنے پڑے ہیں مگر ان پر زبان کھولنے کی ہمت کم ہی اہلِ اختیار میں نظر آتی ہے۔ حیرت ہے کہ ملک میں ہزاروں کنالوں پر پھیلی سوسائٹیاں، غیر قانونی شادی ہال، بااثر افراد کے فارم ہائوس، تجاوزاتی دکانیں اور مارکیٹیں تو کسی کی زبان پر نہیں آتیں، مگر مدارس جن کی اکثریت قانونی طور پر قائم ہے اور جو ایک منظم وفاقی نظام کے تحت رجسٹرڈ ہیں انہیں ہی نشانہ بنانا مناسب سمجھ لیا جاتا ہے۔ جب اتنے بڑے بڑے مسائل موجود ہوں اور پھر بھی تنقید کا تیر صرف مدارس کی طرف ہی پھینکا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیانیے کے پیچھے حقیقت نہیں بلکہ تعصب بدنیتی یا کم از کم لاعلمی ضرور کارفرما ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور دیگر بورڈز نے اسی تناظر میں اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ مدارس کے بارے میں اگر کوئی اعتراض سوال یا غلط فہمی ہے تو اسے تحقیق، مکالمے اور شفافیت کے ذریعے حل کیا جائے نہ کہ الزام تراشی اور پراپیگنڈے کے ذریعے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مدارس پر تنقید ہمارے بعض سیاسی حلقوں کے لیے ایک آسان راستہ بن چکا ہے۔ جب بھی کسی کو کوئی موقع چاہیے ہوتا ہے یا کسی خاص تاثر کو ہوا دینی ہوتی ہے تو مدارس پر ایک بیان داغ دیا جاتا ہے اور میڈیا پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ چند سال پہلے خود خواجہ آصف صاحب انہی مدارس کے طلبہ کو ملکی دفاع کی دوسری لائن کہتے تھے، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے اور آج اچانک وہی مدارس ملک کے مسائل کی جڑ قرار دئیے جا رہے ہیں۔ یہ تضاد دراصل ہماری سیاسی کمزوری کا عکاس ہے۔ ہمارے یہاں بیانات اصولوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ وقت کی مصلحتوں کے مطابق بدلتے ہیں، اور اسی کا نقصان قومی اداروں، مذہبی طبقات اور معاشرتی اعتماد کو پہنچتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی مزاحمت عالمی سیاسی ماحول اور اُس وقت کی خطے کی صورت حال کسی مدرسے کی خود ساختہ پیداوار نہیں تھی، بلکہ یہ سب کچھ ریاستِ پاکستان کی پالیسیوں کا حصہ تھا۔ آج ماضی کے ان فیصلوں کا بوجھ مدارس پر ڈال دینا سراسر ناانصافی ہے۔ بہت سی عالمی قوتوں نے خود اس علاقے کو استعمال کیا اور اس کے سیاسی نتائج آج بھی سامنے ہیں، مگر تنقید کی توپ صرف مدارس کی طرف مور دی جاتی ہے، جیسے تمام مسائل کی جڑ یہی ادارے ہوں۔ دہشت گردی جیسے پیچیدہ، عالمی اور سیاسی مسئلے کو محض دینی مدارس سے جوڑ دینا ایک ایسی فکری غلطی ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی محرومیوں، معاشی ناہمواریوں، عالمی جنگوں، ریاستی پالیسیوں اور سماجی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اسے مدارس کے کھاتے میں ڈال کر ہم نہ صرف اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دیتے ہیں بلکہ معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کر دیتے ہیں۔
مدارس پاکستان کی تہذیبی اور علمی تاریخ کا وہ حصہ ہیں جن کی خدمات کا ہر دور میں اعتراف کیا گیا ہے۔ ان اداروں نے لاکھوں بچوں کو تعلیم، تربیت، کردار اور اخلاق سکھایا ہے۔ جہاں عام تعلیمی ادارے سینکڑوں کی فیس لیتے ہیں، وہاں مدارس میں طلباء و طالبات کے لیے تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ مدارس ایک سماجی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں جسے نظر انداز کرنا انصاف کے خلاف ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک کی سلامتی، امن اور کردار سازی کو اپنا مقصد رکھا۔ ایسے اداروں کو بار بار نشانہ بنانا کسی طور دانشمندی نہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور دیگر تمام مدارس بورڈز نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بیان کی تحقیقات کرائی جائے اور ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات کو روکا جائے جو معاشرے میں تنائو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مطالبہ نہ جذباتی ہے، نہ سیاسی یہ دراصل ایک سنجیدہ قومی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر ریاست کے ذمہ دار افراد ہی بغیر تحقیق ایسے بیانات دیں گے تو پھر معاشرے میں بے اعتمادی کیسے ختم ہو سکے گی؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ قدم اٹھائے، ذمہ داروں کو تحقیق کے بغیر گفتگو سے روکے اور مدارس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو کسی بھی تعلیمی ادارے کے ساتھ کرنا چاہیے یعنی احترام، تعاون اور مثبت اصلاحات کے ذریعے بہتری کی کوشش۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مدارس پر مسلسل تنقید، غلط فہمیاں اور بے بنیاد الزامات نوجوان نسل میں بے چینی اور بدگمانی پیدا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی فکری بنیاد ہوتے ہیں۔ انہیں متنازعہ بنانا دراصل ملک کی فکری بنیاد کو کمزور کرنا ہے۔ اگر کہیں کوئی مسئلہ ہو تو اسے حل کیا جائے، نہ کہ اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔
دہشت گردی کو مدارس سے جوڑنا ایک سیاسی کھیل بن چکا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس رجحان نے نہ صرف انصاف کا گلا گھونٹا ہے بلکہ ملک کے حقیقی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے اسباب تلاش کرے، ان کا تجزیہ کرے اور مناسب پالیسی بنائے۔ مدارس کو قربانی کا بکرا بناتے رہنے سے نہ دہشت گردی ختم ہوگی، نہ معاشرتی امن آئے گا۔ اس کے برعکس، مدارس کے ساتھ تعاون، اصلاحی مکالمہ، مثبت اقدامات اور باہمی اعتماد ہی وہ راستہ ہے جو قوم کو آگے لے جا سکتا ہے۔ مدارس کے حوالے سے ضروری ہے کہ ہم اپنی اجتماعی ذمہ داری کو محسوس کریں اور معاشرتی انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھیں۔ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنی بنیادوں کو مضبوط رکھتی ہیں، اور مدارس ہمارے دینی اور فکری ورثے کی وہ بنیاد ہیں جنہیں کمزور کرنا حقیقتاً قوم کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم الزام تراشی کی فضا کو ختم کریں، باہمی احترام اور اعتماد کے دروازے کھولیں اور اپنے اختلافات کو دانش، تحقیق اور خیرخواہی کے ساتھ حل کرنے کا رویہ اختیار کریں۔ ہمیں آج ایک لمحے کو رک کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی ہی فکری بنیادوں کو کمزور کر کے کسی مضبوط مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں؟ مدارس وہ روشن چراغ ہیں جنہوں نے صدیوں تک علم، تہذیب اور اخلاق کے قافلوں کو راستہ دکھایا۔ اگر آج ان چراغوں کو بجھانے کی باتیں ہوں گی تو آنے والی نسلیں روشنی کہاں سے لیں گی؟ یہ ادارے صرف درس گاہیں نہیں بلکہ کردار سازی کے مراکز ہیں جہاں محبت، ایثار، اخلاص اور انسانیت کا درس دیا جاتا ہے۔ مدارس کے خلاف ہونے والی ہر بے بنیاد بات صرف ایک ادارے پر تنقید نہیں بلکہ قوم کے اجتماعی شعور پر حملہ ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ مدارس کو مشکوک بنانے سے نہ ملک مضبوط ہوگا، نہ معاشرہ۔ اگر کہیں کوئی اصلاح کی ضرورت ہے تو اسے دشمنی اور الزام تراشی کے بجائے تعاون اور خیر خواہی کے ذریعے پورا کیا جائے، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو اٹھاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کی بجائے اعتماد کی فضا قائم کریں۔ اگر ریاست، میڈیا، دینی طبقات اور تعلیمی ادارے باہمی احترام کے ساتھ مل کر بیٹھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے نوجوانوں کے لیے ایک روشن، محفوظ اور مضبوط مستقبل نہ بنا سکیں۔ مدارس کے کردار کو دبانے یا مسخ کرنے کی نہیں بلکہ اسے سمجھنے، سراہنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ آخرکار تعلیمی ادارے خواہ دینی ہوں یا عصری ، سب اس ملک کے ہیں۔ ان پر سیاست نہیں بلکہ خدمت اور اصلاح ہونی چاہیے۔ اگر ہم نے مدارس کو مضبوط کیا، ان کی قدر پہچانی اور ان کے ساتھ انصاف کیا تو یقیناً ایک باوقار، پرامن اور متحد پاکستان ہمارا مستقبل ہوگا، اور یہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو مضبوط بھی کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کو روشن ورثہ بھی دیتا ہے۔
مزید برآں، یہ صرف مدارس پر تنقید نہیں بلکہ ہماری تہذیب، فکری بنیاد اور اخلاقی تعلیم پر بھی حملہ ہی۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو صرف مغربی طرز زندگی کی تقلید کرنے دیں اور مدارس کے کردار کو کمزور کریں تو معاشرہ بے راہ روی اور اخلاقی طور پر کمزور ہوگا۔ مدارس کے طالب علم آج بھی ملک کی خدمت میں سرگرم ہیں نہ کہ کسی انتہا پسندی میں۔ یہی طلبہ آئندہ وہ رہنما بنیں گے جو ملک کو اخلاق، فہم اور علم کے ساتھ سنواریں گے۔ اس لیے یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم مدارس کو تحفظ، حمایت اور احترام دیں، نہ کہ سیاسی کھیل کے طور پر انہیں ہدف بنائیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اداروں کی قدر کریں، ان کے مثبت کردار کو سامنے لائیں اور اصلاح کی ضرورت ہو تو اسے تعاون اور خیر خواہی کے ساتھ پورا کریں۔ مدارس نہ صرف دینی تعلیم بلکہ اخلاق، کردار، خدمت اور وطن پرستی کا بھی درس دیتے ہیں۔ اگر ہم نے مدارس کو مضبوط رکھا تو آنے والی نسلیں ایک پرامن، باوقار اور مضبوط پاکستان دیکھیں گی، اور یہی ہماری سب سے بڑی قومی کامیابی ہوگی۔
مدارس پر الزام تراشی، سیاسی بیانات اور حقیقت
ثناء اللہ مجیدی
وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا حالیہ بیان مدارس کے بارے میں ایک بار پھر وہ بحث چھیڑ گیا ہے جو ہمارے معاشرتی اور سیاسی ماحول میں کئی برسوں سے بار بار اٹھتی اور دبتی رہتی ہے۔ مدارس کی خدمات، کردار اور تاریخی اہمیت سے صرفِ نظر کرکے محض چند سیاسی جملوں اور غیر مصدقہ دعوئوں کی بنیاد پر انہیں مشکوک بنانا نہ صرف بددیانتی ہے بلکہ معاشرتی عدم توازن کو ہوا دینے کے مترادف بھی ہے۔ خواجہ آصف نے یہ دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ہزاروں مدارس قبضہ شدہ زمینوں پر قائم ہیں۔ یہ بیان نہ صرف حقائق سے متصادم ہے بلکہ اس طرزِ فکر کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس میں مدارس کو بار بار بلاوجہ ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ اس ملک میں تجاوزات کا مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں غیر قانونی مارکیٹیں، طاقت ور طبقوں کی قبضہ مافیا، غیر ضابطہ ہائوسنگ سوسائٹیاں، سرکاری زمینوں پر قائم پلازے اور بے شمار ایسے معاملات موجود ہیں جو برسوں سے انتظامیہ کے سامنے پڑے ہیں مگر ان پر زبان کھولنے کی ہمت کم ہی اہلِ اختیار میں نظر آتی ہے۔ حیرت ہے کہ ملک میں ہزاروں کنالوں پر پھیلی سوسائٹیاں، غیر قانونی شادی ہال، بااثر افراد کے فارم ہائوس، تجاوزاتی دکانیں اور مارکیٹیں تو کسی کی زبان پر نہیں آتیں، مگر مدارس جن کی اکثریت قانونی طور پر قائم ہے اور جو ایک منظم وفاقی نظام کے تحت رجسٹرڈ ہیں انہیں ہی نشانہ بنانا مناسب سمجھ لیا جاتا ہے۔ جب اتنے بڑے بڑے مسائل موجود ہوں اور پھر بھی تنقید کا تیر صرف مدارس کی طرف ہی پھینکا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیانیے کے پیچھے حقیقت نہیں بلکہ تعصب بدنیتی یا کم از کم لاعلمی ضرور کارفرما ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور دیگر بورڈز نے اسی تناظر میں اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ مدارس کے بارے میں اگر کوئی اعتراض سوال یا غلط فہمی ہے تو اسے تحقیق، مکالمے اور شفافیت کے ذریعے حل کیا جائے نہ کہ الزام تراشی اور پراپیگنڈے کے ذریعے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مدارس پر تنقید ہمارے بعض سیاسی حلقوں کے لیے ایک آسان راستہ بن چکا ہے۔ جب بھی کسی کو کوئی موقع چاہیے ہوتا ہے یا کسی خاص تاثر کو ہوا دینی ہوتی ہے تو مدارس پر ایک بیان داغ دیا جاتا ہے اور میڈیا پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ چند سال پہلے خود خواجہ آصف صاحب انہی مدارس کے طلبہ کو ملکی دفاع کی دوسری لائن کہتے تھے، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے اور آج اچانک وہی مدارس ملک کے مسائل کی جڑ قرار دئیے جا رہے ہیں۔ یہ تضاد دراصل ہماری سیاسی کمزوری کا عکاس ہے۔ ہمارے یہاں بیانات اصولوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ وقت کی مصلحتوں کے مطابق بدلتے ہیں، اور اسی کا نقصان قومی اداروں، مذہبی طبقات اور معاشرتی اعتماد کو پہنچتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی مزاحمت عالمی سیاسی ماحول اور اُس وقت کی خطے کی صورت حال کسی مدرسے کی خود ساختہ پیداوار نہیں تھی، بلکہ یہ سب کچھ ریاستِ پاکستان کی پالیسیوں کا حصہ تھا۔ آج ماضی کے ان فیصلوں کا بوجھ مدارس پر ڈال دینا سراسر ناانصافی ہے۔ بہت سی عالمی قوتوں نے خود اس علاقے کو استعمال کیا اور اس کے سیاسی نتائج آج بھی سامنے ہیں، مگر تنقید کی توپ صرف مدارس کی طرف مور دی جاتی ہے، جیسے تمام مسائل کی جڑ یہی ادارے ہوں۔ دہشت گردی جیسے پیچیدہ، عالمی اور سیاسی مسئلے کو محض دینی مدارس سے جوڑ دینا ایک ایسی فکری غلطی ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی محرومیوں، معاشی ناہمواریوں، عالمی جنگوں، ریاستی پالیسیوں اور سماجی تضادات کا مجموعہ ہے۔ اسے مدارس کے کھاتے میں ڈال کر ہم نہ صرف اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دیتے ہیں بلکہ معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کر دیتے ہیں۔
مدارس پاکستان کی تہذیبی اور علمی تاریخ کا وہ حصہ ہیں جن کی خدمات کا ہر دور میں اعتراف کیا گیا ہے۔ ان اداروں نے لاکھوں بچوں کو تعلیم، تربیت، کردار اور اخلاق سکھایا ہے۔ جہاں عام تعلیمی ادارے سینکڑوں کی فیس لیتے ہیں، وہاں مدارس میں طلباء و طالبات کے لیے تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ مدارس ایک سماجی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں جسے نظر انداز کرنا انصاف کے خلاف ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک کی سلامتی، امن اور کردار سازی کو اپنا مقصد رکھا۔ ایسے اداروں کو بار بار نشانہ بنانا کسی طور دانشمندی نہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور دیگر تمام مدارس بورڈز نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بیان کی تحقیقات کرائی جائے اور ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات کو روکا جائے جو معاشرے میں تنائو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مطالبہ نہ جذباتی ہے، نہ سیاسی یہ دراصل ایک سنجیدہ قومی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر ریاست کے ذمہ دار افراد ہی بغیر تحقیق ایسے بیانات دیں گے تو پھر معاشرے میں بے اعتمادی کیسے ختم ہو سکے گی؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ قدم اٹھائے، ذمہ داروں کو تحقیق کے بغیر گفتگو سے روکے اور مدارس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو کسی بھی تعلیمی ادارے کے ساتھ کرنا چاہیے یعنی احترام، تعاون اور مثبت اصلاحات کے ذریعے بہتری کی کوشش۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مدارس پر مسلسل تنقید، غلط فہمیاں اور بے بنیاد الزامات نوجوان نسل میں بے چینی اور بدگمانی پیدا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی فکری بنیاد ہوتے ہیں۔ انہیں متنازعہ بنانا دراصل ملک کی فکری بنیاد کو کمزور کرنا ہے۔ اگر کہیں کوئی مسئلہ ہو تو اسے حل کیا جائے، نہ کہ اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔
دہشت گردی کو مدارس سے جوڑنا ایک سیاسی کھیل بن چکا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس رجحان نے نہ صرف انصاف کا گلا گھونٹا ہے بلکہ ملک کے حقیقی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے اسباب تلاش کرے، ان کا تجزیہ کرے اور مناسب پالیسی بنائے۔ مدارس کو قربانی کا بکرا بناتے رہنے سے نہ دہشت گردی ختم ہوگی، نہ معاشرتی امن آئے گا۔ اس کے برعکس، مدارس کے ساتھ تعاون، اصلاحی مکالمہ، مثبت اقدامات اور باہمی اعتماد ہی وہ راستہ ہے جو قوم کو آگے لے جا سکتا ہے۔ مدارس کے حوالے سے ضروری ہے کہ ہم اپنی اجتماعی ذمہ داری کو محسوس کریں اور معاشرتی انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھیں۔ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنی بنیادوں کو مضبوط رکھتی ہیں، اور مدارس ہمارے دینی اور فکری ورثے کی وہ بنیاد ہیں جنہیں کمزور کرنا حقیقتاً قوم کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم الزام تراشی کی فضا کو ختم کریں، باہمی احترام اور اعتماد کے دروازے کھولیں اور اپنے اختلافات کو دانش، تحقیق اور خیرخواہی کے ساتھ حل کرنے کا رویہ اختیار کریں۔ ہمیں آج ایک لمحے کو رک کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی ہی فکری بنیادوں کو کمزور کر کے کسی مضبوط مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں؟ مدارس وہ روشن چراغ ہیں جنہوں نے صدیوں تک علم، تہذیب اور اخلاق کے قافلوں کو راستہ دکھایا۔ اگر آج ان چراغوں کو بجھانے کی باتیں ہوں گی تو آنے والی نسلیں روشنی کہاں سے لیں گی؟ یہ ادارے صرف درس گاہیں نہیں بلکہ کردار سازی کے مراکز ہیں جہاں محبت، ایثار، اخلاص اور انسانیت کا درس دیا جاتا ہے۔ مدارس کے خلاف ہونے والی ہر بے بنیاد بات صرف ایک ادارے پر تنقید نہیں بلکہ قوم کے اجتماعی شعور پر حملہ ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ مدارس کو مشکوک بنانے سے نہ ملک مضبوط ہوگا، نہ معاشرہ۔ اگر کہیں کوئی اصلاح کی ضرورت ہے تو اسے دشمنی اور الزام تراشی کے بجائے تعاون اور خیر خواہی کے ذریعے پورا کیا جائے، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو اٹھاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کی بجائے اعتماد کی فضا قائم کریں۔ اگر ریاست، میڈیا، دینی طبقات اور تعلیمی ادارے باہمی احترام کے ساتھ مل کر بیٹھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے نوجوانوں کے لیے ایک روشن، محفوظ اور مضبوط مستقبل نہ بنا سکیں۔ مدارس کے کردار کو دبانے یا مسخ کرنے کی نہیں بلکہ اسے سمجھنے، سراہنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ آخرکار تعلیمی ادارے خواہ دینی ہوں یا عصری ، سب اس ملک کے ہیں۔ ان پر سیاست نہیں بلکہ خدمت اور اصلاح ہونی چاہیے۔ اگر ہم نے مدارس کو مضبوط کیا، ان کی قدر پہچانی اور ان کے ساتھ انصاف کیا تو یقیناً ایک باوقار، پرامن اور متحد پاکستان ہمارا مستقبل ہوگا، اور یہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو مضبوط بھی کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کو روشن ورثہ بھی دیتا ہے۔
مزید برآں، یہ صرف مدارس پر تنقید نہیں بلکہ ہماری تہذیب، فکری بنیاد اور اخلاقی تعلیم پر بھی حملہ ہی۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو صرف مغربی طرز زندگی کی تقلید کرنے دیں اور مدارس کے کردار کو کمزور کریں تو معاشرہ بے راہ روی اور اخلاقی طور پر کمزور ہوگا۔ مدارس کے طالب علم آج بھی ملک کی خدمت میں سرگرم ہیں نہ کہ کسی انتہا پسندی میں۔ یہی طلبہ آئندہ وہ رہنما بنیں گے جو ملک کو اخلاق، فہم اور علم کے ساتھ سنواریں گے۔ اس لیے یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم مدارس کو تحفظ، حمایت اور احترام دیں، نہ کہ سیاسی کھیل کے طور پر انہیں ہدف بنائیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اداروں کی قدر کریں، ان کے مثبت کردار کو سامنے لائیں اور اصلاح کی ضرورت ہو تو اسے تعاون اور خیر خواہی کے ساتھ پورا کریں۔ مدارس نہ صرف دینی تعلیم بلکہ اخلاق، کردار، خدمت اور وطن پرستی کا بھی درس دیتے ہیں۔ اگر ہم نے مدارس کو مضبوط رکھا تو آنے والی نسلیں ایک پرامن، باوقار اور مضبوط پاکستان دیکھیں گی، اور یہی ہماری سب سے بڑی قومی کامیابی ہوگی۔







