مودّت ۔۔۔ محبت کا نکتہ کمال
مودّت ۔۔۔ محبت کا نکتہ کمال
شہرِ خواب
صفدر علی حیدری
محبت انسانی فطرت کی پہلی روشنی ہے، جو دل کے گوشے میں چھپی، زندگی کے ہر لمحے میں روشنی بانٹتی ہے۔ محبت نرم کشش ہے، جو کبھی مسکراہٹ کی صورت میں چمکتی ہے، کبھی آنسو کی شکل میں بہتی ہے، اور انسان کے وجود کو معنویت عطا کرتی ہے۔ محبت انسان کو نرم بھی کرتی ہے اور بے قرار بھی، قریب بھی کرتی ہے اور آزردہ بھی۔
محبت ایک اندرونی کیفیت ہے، مگر مودّت دل سے نکل کر عملی زندگی میں اترنے والی شعوری، اخلاقی اور روحانی روشنی ہے۔ یہ محبت کی تکمیل، اس کی عملی شکل، اور انسانی تعلقات میں اثر پذیری ہے۔ محبت دل کی خوشبو ہے، مودّت اس خوشبو کا پھولوں میں کھلنا۔ محبت جذبہ ہے، مودّت شعور۔ محبت آغاز ہے، مودّت عروج۔ محبت راستہ دکھاتی ہے، مودّت منزل تک پہنچاتی ہے۔ محبت دل میں رہتی ہے، مودّت زندگی میں ظاہر ہوتی ہے۔
محبت اور مودّت: دو سطحیں، ایک سفر
محبت دل میں جنم لیتی ہے، مگر مودّت عمل میں اثر ڈالتی ہے۔ محبت انسان کو محبوب کی طرف کھینچتی ہے، مودّت اسے محبوب کے طریق پر ثابت قدم رکھتی ہے۔ محبت میں انسان فانی ہوتا ہے، مودّت میں وہ اپنی فانی محبت کو قربانی کے روشنی میں ڈھال دیتا ہے۔ محبت میں انسان خواہشات کے تابع ہوتا ہے، مودّت میں وہ اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔ محبت صرف جذبہ ہے، مودّت عمل ہے۔ محبت انسان کو بتاتی ہے کہ محبوب کی قدر کرو، مودّت انسان کو سکھاتی ہے کہ محبوب کے اصولوں پر عمل کرو۔
حضرت ابراہیمٌ کی قربانی۔۔۔ محبت کا مودّت پر قربان ہونا
محبت ہمیشہ لینے کی خواہش رکھتی ہے، مگر مودّت دینے، قربان کرنے اور اللہ کی رضا کے لیے عمل کرنے کا نام ہے۔ حضرت ابراہیمٌ نے بیٹے سے محبت کی انتہا دیکھی، اور اللہ کے حکم پر اپنی محبت کو قربان کر دیا۔
یہ مقام وہ ہے جہاں محبت عاجز ہو جاتی ہے، مگر مودّت ایمان کا تاج پہن لیتی ہے۔
اہل عرفان اور علماء کے قول کے مطابق:’’ مودّت وہ ہے جس پر محبت کو بھی قربان کیا جا سکے‘‘۔
محبت کہتی ہے: ’’ میں تمہارے بغیر ادھوری ہوں‘‘، مودّت کہتی ہے: ’’ اگر اللہ کا حکم آئے تو تم بھی قربان، میں بھی قربان ‘‘۔
اسی طرح، دیگر انبیاء اور اولیاء کی زندگی میں بھی ایسے مواقع آئے، جہاں محبت اور مودّت کا فرق واضح ہوا، اور مودّت نے محبت کو عملی اور روحانی عروج بخشا۔
اہل سنت کا نقطہ نظر
امام شافعی: ’’ مودّت اہلِ بیت ایمان کا حصہ ہے اور اسے ترک کرنا گمراہی ہے‘‘۔
یہ مودّت کے دل اور عقل دونوں پہلوئوں کی نشاندہی کرتا ہے: محبت دل میں، عمل عقل و فہم کے مطابق۔
امام احمد بن حنبل: ’’ اہلِ بیت سے محبت ایمان کا فرض اور رسولؐ کا حق ہے‘‘۔
’’ جو اہل بیت سے بغض رکھتا ہے، اس کی کوئی حدیث قبول نہیں‘‘۔
مودّت کے یہ اصولی تقاضے ہیں: محبت دل میں، مودّت عقیدہ اور عمل میں۔
امام مالک: ’’ اہلِ بیت سے محبت ہر مسلمان پر واجب ہے، کیونکہ رسولؐ نے اسے واجب فرمایا ہے‘‘۔ مودّت ادب، احترام اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہے۔
امام ابو حنیفہ: ’’ محبت کافی نہیں، عملی پیروی بھی ضروری ہے‘‘۔ یہ نظریہ مودّت کی اس پہلو کو واضح کرتا ہے کہ جذبات کے ساتھ عمل لازم ہے۔
اہل سنت میں مودّت کو دل کی محبت کے ساتھ ساتھ عمل، ادب، اطاعت اور عملی پیروی کے ذریعے مکمل کیا جاتا ہے۔—
شیعہ نقطہ نظر
شیعہ علماء کے مطابق مودّت اہل بیت سے محبت کا عملی اظہار اور ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ محبت صرف دل میں ہو تو عارضی اور محدود ہے، لیکن مودّت کے ذریعے وہ محبت عملی اور اثر پذیر ہوتی ہے۔
اہم نکات
روحانی و عملی بقا: مودّت انسان کو دین میں نظم و استقامت اور اخلاقی قوت دیتی ہے۔
علمی رہنمائی: اہل بیت کے علمی مرجع ہونے کی وجہ سے ان کی محبت اور مودّت انسان کو علمی مسائل میں درست رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
قرب اور طاعت: محبت کو عملی شکل میں بدل کر انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے۔
اہم علماء شیعہ
علامہ طباطبائی: مودّت کے ذریعے امت علمی و عملی طور پر اہل بیت سے وابستہ رہتی ہے۔
محمد رضا مظفر: اہل بیت کی محبت انسان کو اللہ کے قرب اور روحانی مقام تک پہنچاتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای اور محمد تقی مصباح یزدی: مودّت اطاعت کی بنیاد ہے؛ حقیقی مودّت عملی اطاعت سے ظاہر ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں مودّت
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے محبت کو امت پر واجب قرار دیا: ’’ رسولؐ کی رسالت کا اجر اہل بیت سے محبت اور مودّت ہے۔ ( سورہ شوریٰ 23) ۔
حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، امام حسنؓ اور امام حسینؓکی مودّت نہ صرف دل میں محبت بلکہ عمل، اطاعت اور اخلاقی تربیت کا تقاضا کرتی ہے۔
مودّت کے اثرات:
اخروی اثرات
سکونِ موت
قبر میں نور
قیامت میں شفاعت
پل صراط پر استقامت
اعمال کی قبولیت
دنیوی اثرات
عبادت اور شب بیداری کا شوق
دل کی پاکیزگی
زبان پر حکمت
اخلاق میں بلندی
دنیا سے بے رغبتی
دوسروں کے مال میں لالچ نہ ہونا
مودّت انسان کو گناہ سے دور رکھتی ہے اور کردار میں وقار پیدا کرتی ہے۔
مودّت کے عملی مظاہر:
اہل بیت کی فضیلت بیان کرنا
ان کی خوشیوں میں شریک ہونا
بچوں کے نام اہل بیت سے رکھنا
احکام دین میں اطاعت
زیارت قبور ائمہ
یہ سب اعمال مودّت کے عملی اظہار ہیں اور محبت کو زندگی میں قائم رکھتے ہیں۔
مودّت، محبت کا عملی عروج:
محبت انسان کو راستہ دکھاتی ہے، مودّت اسے منزل تک پہنچاتی ہے۔
محبت دل کی روشنی ہے، مودّت اس روشنی کی تکمیل۔
محبت جذبات کی شدت ہے، مودّت شعور کی بلندی۔
محبت آغاز ہے، مودّت تکمیل۔
محبت انسان کو دل کی رہنمائی دیتی ہے، مودّت انسان کو عمل کی رہنمائی دیتی ہے۔
مودّت محبت کا نکتہ عروج ہے۔





