Column

پاکستان کے دینی اجتماعات : ایمان، اتحاد اور اصلاحِ امت کا سفر

پاکستان کے دینی اجتماعات : ایمان، اتحاد اور اصلاحِ امت کا سفر

عمران احمد سلفی
پاکستان، جس کی بنیاد لا لہ لا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر رکھی گئی، اس کے دینی اور روحانی منظرنامے میں ہر سال ایسے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو امتِ مسلمہ کے لیے تجدیدِ ایمان، اصلاحِ احوال اور باہمی وحدت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ اجتماعات نہ صرف مذہبی جذبے کو تازہ کرتے ہیں بلکہ قوم میں اخلاقی بیداری اور دینی شعور کو فروغ دیتے ہیں۔رائیونڈ کا سالانہ تبلیغی اجتماع پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دینی اجتماعات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ آج سے شروع ہونے والا یہ اجتماع لاکھوں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں علماء و مشائخ، اور عام مسلمان اللہ کی یاد، ذکر و اذکار، اور اصلاحِ نفس کی تلقین میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع عملی طور پر قرآن کی اس آیت کی تفسیر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’ اور نصیحت کرتے رہو، بے شک نصیحت ممنوں کو فائدہ دیتی ہے ‘‘۔ ( الذاریات: 55)۔
یہی وہ روحانی ماحول ہے جہاں انسان اپنی زندگی کا مقصد پہچانتا ہے، گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں چلنے کا عزم کرتا ہے۔
اسی سلسلے میں21، 22اور 23نومبر کو جماعتِ اسلامی پاکستان کا سالانہ اجتماع مینارِ پاکستان میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی ہمیشہ سے اصلاحِ معاشرہ، عدل و انصاف کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتی آئی ہے۔ یہ اجتماع اس عزم کی تجدید ہے کہ پاکستان میں نظامِ حیات کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت دے، بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔ ( آل عمران: 104)۔
یہی آیت ہر دینی جماعت کے مشن اور مقصد کو واضح کرتی ہے کہ وہ معاشرے میں خیر و صلاح اور اصلاح کی دعوت دیں۔ مجھے محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کے الفاظ یاد آگئے جو انہوں اسی طرح سالانہ بڑے اجتماع میں فرمائے تھے میرا بھی دل نہیں چاہتا آپ سے جدا ہونے کا آپ کی بھی نہیں چاہتا ہوگا ان شاء اللہ کل اللہ کی بارگاہ میں جمع ہونگے ملاقات ہوگی جنت میں ایک ساتھ اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔
سال 2025کے آخر میں جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے سربراہ علامہ ڈاکٹر ہشام الٰہی ظہیر صاحب نے مینارِ پاکستان میں ایک بڑے اجتماع کا اعلان کیا ہے۔ یہ اجتماع نہ صرف ایک کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی دینی تحریک کا پیش خیمہ ہے بلکہ ان کے والدِ محترم حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ کی یاد کو تازہ کرتا ہے، جو تقریباً چار دہائیاں قبل ایک عظیم الشان اجتماع میں بم دھماکے کے نتیجے میں شہید ہوئے تھے۔ یہ قربانی اس بات کا ثبوت ہے کہ علمائِ حق نے ہمیشہ دین کی سربلندی اور امت کی اصلاح کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
رسولِ اکرم ؐنے فرمایا: ’’ سب سے افضل جہاد ظالم حاکم کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔ (سنن ابودائود)
یہ اجتماع شہداء کے مشن کی تجدید اور امت کو قرآن و سنت کے رشتے میں پرو دینے کی عملی دعوت ہے۔ پاکستان میں ہونیوالے یہ اجتماعات صرف مذہبی اجتماعات نہیں بلکہ اصلاحِ احوال، اتحادِ امت، اور اجتماعی توبہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان اجتماعات میں تمام مکاتبِ فکر چاہے وہ تبلیغی جماعت ہو، جماعتِ اسلامی، اہلِ حدیث یا دیگر، سب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو دینِ اسلام کی اصل دعوت سے روشناس کرایا جائے، اخلاقی زوال کو روکا جائے، اور اللہ و رسول ٔ کی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دی جائے۔ الحمدللہ ان اجتماعات کے اثرات آج ہمارے معاشرے میں واضح نظر آتے ہیں۔ مدارس و مساجد کی بڑھتی ہوئی تعداد، نوجوانوں میں دین سے لگا، اور معاشرے میں خیر و اصلاح کی کوششیں انہی کا ثمر ہیں۔
پاکستان میں نومبر سے فروری تک کا موسم نہایت معتدل اور خوشگوار ہوتا ہے، جو کھلے میدانوں میں اجتماعات کے انعقاد کے لیے موزوں ترین سمجھا جاتا ہے۔ ان اجتماعات کے اختتام پر ملک و ملت اور عالمِ اسلام کے لیے اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں۔ امت کی وحدت، امت کے زوال کی بحالی، اور امتِ محمدیہ ٔ کے عروج کے لیے۔
نبی کریمؐ کا فرمان ہے: ’’ دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔
جب لاکھوں ہاتھ ایک ساتھ اٹھتے ہیں، آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ آسمان بھی زمین سے قریب ہو گیا ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتیں اور علمائِ کرام اپنے اپنے مکتبہ فکر کی حدوں سے اوپر اٹھ کر دینِ اسلام کے مشترکہ پیغام کو عام کریں۔
قرآن نے ہمیں بارہا یاد دلایا ہے : ’’ اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔( آل عمران: 103)
اگر یہ اجتماعات امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا ذریعہ بن جائیں تو یقیناً وہ وقت دور نہیں جب پاکستان صرف نام کا اسلامی ملک نہیں، بلکہ عمل اور کردار سے بھی اسلام کا قلعہ بن جائے گا۔
پاکستان کے دینی اجتماعات محض مذہبی رسومات نہیں بلکہ دینِ محمدی ٔ کی تجدید، اصلاحِ معاشرہ، اور امتِ واحدہ کے خواب کی تعبیر ہوں۔ ان اجتماعات سے یہ امید بندھتی ہے کہ علمائِ کرام اور دینی قائدین ملت کے نوجوانوں کو فروعی اختلافات سے نکال کر اللہ کی توحید قرآن و سنت کی اصل روح سے جوڑنے میں کامیاب ہوں گے۔
ان شاء اللہ یہی عمل امتِ محمدیہ کو وہ مقام دلا سکتا ہے، جس کا وعدہ قرآن نے کیا ہے
’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی‘‘۔ ( آل عمران: 110)

جواب دیں

Back to top button