ColumnRoshan Lal

اٹھارویں ترمیم خطرات کی زد میں

اٹھارویں ترمیم خطرات کی زد میں
روشن لعل
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد یہاں مرکز اور صوبوں کے درمیان صوبائی وسائل پر حق، اختیار اور تقسیم کے معاملات پرجو کشمکش شروع ہوئی وہ آج بھی جوں کی توں نظر آتی ہے۔ بعض اوقات حکومتوں کی تبدیلی سے اس کشمکش کی نوعیت کسی حد تک تبدیل ہو جاتی ہے مگر یہ کشا کشی کسی بھی دور میں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ تصور کیا گیا تھا کہ صوبائی وسائل پر حق اور تقسیم کے سلسلے میں مرکز اور صوبوں کی حدود طے ہو جانے کے بعد یہ کشمکش مزید جاری نہیں رہ سکے گی مگر پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ تصور زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں جونہی مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا، صوبوں کے وسائل پر اختیار اور تقسیم کے تنازعات نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کے وجود میں سے بنگلہ دیش کی پیدائش مذکورہ تنازعات کے بروقت طے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، ان تنازعات کے خاتمے کے لیے بہت کم سنجیدہ رویوں کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ۔
جس اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں اور وفاق کے اختیارات میں توازن پیدا کیے جانے کے دعووں کے باوجود چھوٹے صوبے اپنے وسائل پر کنٹرول کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے اب اس کو اس طرح سے تبدیل کرنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ پھر سے مرکز کو صوبوں کے وسائل پر فیصلہ کن اختیار حاصل ہو جائے۔ اٹھارویں ترمیم کو تبدیل کرنے کی جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان میں ابھی تک ایسا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ اس ترمیم کی کون کون سی شقوں کو چھیڑا جائے گا لہذا یہاں اپنی طرف سے کوئی پیش گوئی کرنے کی بجائے وہ چیدہ نکات بیان کیے جارہے ہیں جنہیں اٹھارویں ترمیم کے اہم خصوصیات قرار دیا گیا تھا۔
اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ 1973ء کے آئین کی وفاقی اور پارلیمانی روح کو پھر سے بحال کر دیا گیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے بعد صوبوں کے اختیارات کے ساتھ مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی) کے دائرہ کار میں بھی اضافہ ہوا۔ مرکز اور صوبوں کے مابین امور پر فیصلہ کرنے کے لئے مرکز اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ مفادات کونسل کو زیادہ موثر آئینی ادارہ ثا بنایا گیا۔ ملک کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لینے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے منصوبے مرتب کرنے کا مشورہ دینے کے لئے قومی معاشی کونسل کے مشاورتی کردار کی نئے سرے سے تشریح کی گئی۔ قومی محصولات کی صوبوں میں تقسیم کے لیے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت صوبوں میں قومی محصولات کی تقسیم کے فارمولے کو از سر نو متعین کرتے ہوئے اس طرح قانونی تحفظ دیا گیا کہ صوبوں کے طے شدہ حصص کم نہ کیے جا سکیں۔
آئین میں بنیادی حقوق کی تعداد کو وسعت دی گئی ۔ قانون پر منصفانہ عملدرآمد ، معلومات تک رسائی اور تعلیم کے حصول کو بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا گیا۔ قومی خدمات کے شعبے میں موجود امتیازی رویوں کے تدارک کے لیے ایسی پالیسی بنائی گئی کہ اگر کہیں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہو تو اسے پارلیمانی عمل کے ذریعے ختم کیا جاسکے۔
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کے کردار کو زیادہ وسیع اور موثر بنایا گیا۔ مختلف پالیسیوں اور ضابطوں پر عملدرآمد کی رپورٹیں جن کی قبل ازیں سینیٹ کو آگاہی ضروری نہیں تھی انہیں سینیٹ میں پیش کیا جانا لازمی قرار دیا گیا۔ قوم اسمبلی کی طرح سینیٹ کے اجلاس کے دوران بھی صدر کو آرڈیننس جاری کرنے سے روکا گیا۔ سینیٹ میں فنانس بلوں کے بارے میں سفارشات پیش کرنے کے حد سات دن تھی جسے بڑھا کر 1دن کر دیا گیا ۔ سینیٹ میں غیر مسلموں کے لئے چار نشستیں مختص کرکے سینیٹ کے ممبران کی تعداد 100سے بڑھا کر 104کردی گئی ۔ اس کے علاوہ سینیٹ کے لئے لازمی کام کے دنوں کی تعداد بھی 90سے بڑھا کر 110کردی گئی۔
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صدر پاکستان کو حاصل اسمبلیاں توڑنے جیسے کلیدی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرتے ہوئے اس ادارے کی بالادستی اور خود مختاری کو تسلیم کیا گیا ۔ ضیا الحق اور مشرف جیسے آمروں نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے یا کسی سوال پر ریفرنڈم کرانے کے لیے صدر کو جن آمرانہ صوابدیدی اختیارات کا حامل بنایا تھا انہیں ختم کر دیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت فیڈریشن کی ایگزیکٹو اتھارٹی کا ذمہ دار صدر کی بجائے وزیر اعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل وفاقی حکومت کو بنایا گیا۔ کسی شخص پر تیسری بار وزیر اعظم بننے اور /یا وزیر اعلی بننے کی پابندی کو ختم کر دیا گیا ۔ اسلام آباد میں ایک نئی ہائی کورٹ تشکیل دی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی مدت تین سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی۔ اٹھارویں ترمیم کے مطابق، مدت پوری ہونے یا کسی دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد، صدر سبکدوش وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے رہنما سے مشاورت کرکے نگراں وزیر اعظم کا تقرر کرے گا۔ نگراں وزراء کا اپنا خاندان، یعنی شریک حیات اور بچے، نگراں کابینہ کے زیر نگرانی انتخابات لڑنے کے اہل نہیں ہوں گے۔
کنکرنٹ لسٹ میں شامل جن امور پر وفاقی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی، دونوں ہی قانون سازی کر سکتے تھے انہیں اٹھارویں ترمیم کے تحت خارج کرتے ہوئے فوجداری قانون، فوجداری طریقہ کار کے علاوہ دیگر تمام امور صوبوں میں منتقل کر دیئے گئے۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کو اپنی اپنی حدود کے لیے قانون سازی کا مجاز بنایا گیا۔ آئین سے حذف شدہ کنکرنٹ لسٹ کے کچھ امور بین الصوبائی ادارے کونسل آف کامن انٹرسٹ ( مشترکہ مفادات کونسل) کے سپرد کر دیئے گئے ۔
مشترکہ مفادات کونسل کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے کے لیے تمام وفاقی اکائیوں کے لیے پہلے زیادہ قابل قبول بنایا گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کو اس کا چیئرمین بنایا گیا ہے۔ سی سی آئی کا اجلاس ایک سہ ماہی میں کم از کم ایک مرتبہ منعقد ہونا لازمی قرار دیا گیا ۔ جن امور پر مشترکہ مفادات کونسل کو پالیسی کنٹرول دیا گیا ان میں سے کچھ کو خارج شدہ کنکرنٹ لسٹ میں سے لیا گیا اور کچھ امور کے لیے وفاق کو حاصل قانون سازی کا اختیار منہا کر کے صوبوں کو دیا گیا ۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت یہ بھی طے پایا ہے کہ فیڈریشن آئندہ کسی صوبے میں صوبائی حکومت کی مشاورت کے بغیر نئے ہائیڈرو الیکٹرک اسٹیشن نہیں بنا سکے گی۔
مذکورہ سطور میں اٹھارویں ترمیم کے اہم خدوخال بیان کیے گئے ہیں ۔ پہلے چھبیسویں ترمیم اور اس کے بعد ستائیسویں ترمیم کی منظوری سے قبل بھی یہ باتیں سننے میں آئی تھیں کہ اٹھارویں ترمیم کی ہییت تبدیل کی جارہی ہے ۔ سابقہ دو آئینی ترامیم کے دوران تو اٹھارویں ترمیم جوں کی توں رہی لیکن اب یہ سننے میں آرہا ہے کہ اٹھائیسویں ترمیم کے تحت اس ترمیم کو تہہ تیغ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اب دیکھا یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی خالق پیپلز پارٹی اس ترمیم کو آئین میں جوں کا توں برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک مزاحمت کر پاتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button