چپ

چپ
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
شاعر کہتا ہے:
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
کبھی کبھی خاموشی، تنہائی، چائے کا کپ، گہری سوچیں اور یادیں بہترین دوست ثابت ہوتے ہیں۔
ایک بادشاہ نے تین بے گناہ افراد کو سزائے موت سنا دی۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا۔ جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا۔ جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا۔ چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے ایک عالم ، دوسرا وکیل، اور تیسرا فلسفی، سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے۔ وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا۔ بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا۔ اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا۔ یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا۔ اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا۔ میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے۔ میں بے گناہ ہوں اور یہاں بھی میرا رب انصاف کرے گا۔ اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا۔ پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا۔ پھانسی دینے والے اس انصاف سے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی۔ اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا، ’’ اس دنیا میں نہ ہی کوئی خدا ہے اور نہ وہ کسی کو بچاتا ہے۔ عالم کو نہ خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے، جس سے رسہ پورا کُھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا‘‘۔ فلسفی کی بات سُن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی۔ انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا۔ تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین فطین سر کچل کر رکھ دیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔
دنیا میں دو طاقتیں بہت خوفناک ہیں۔ ایک کہا ہوا لفظ اور دوسرا وقت پر نہ کہا ہوا لفظ۔۔
بہت سے لوگ مرنے نہیں جاتے، بس اپنی زبان سے اپنی قبر کھود لیتے ہیں۔ فلسفی بول پڑا۔ وہ اتنا بولا کہ اس کی بات پتھر سے بھی بھاری ہو گئی۔ فلسفی کے الفاظ اس کے اپنے ہی سر پر آگرے۔ دنیا کی سب سے بڑی دانائی علم اور زیادہ بحث و مباحثہ یا بے فائدہ گفتگو نہیں، خاموشی ہے۔ کم سے کم اتنا پتہ ہو کب کیا کیسے بولنا ہے۔ فلسفی؟ وہ سب جانتا تھا، بس ایک چیز نہیں جانتا تھا۔
’’ وہ وقت جس میں چپ رہنا علم سے زیادہ ضروری ہوتا ہے‘‘۔
یاد رکھیں، زندگی اکثر اُنہیں بچاتی ہے جو بات کم کرتے ہیں۔ ویسے بھی قیامت کے دن سب سے زیادہ خطائیں ان لوگوں کی ہوں گی جو دنیا میں فضول بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔
عربی زبان کا مشہور محاورہ ہے: ’’ جو خاموش رہا اس نے سلامتی پائی اور جو سلامت رہا، اس نے نجات پائی‘‘۔
اسی سے ملتا جلتا مفہوم بہ طورِ محاورہ کے اردو زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ ’’ ایک چُپ سو سُکھ‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے اگر انسان خاموش رہنا اور اپنی زبان کی حفاظت کرنا سیکھ لے، تو وہ کئی طرح کی آفات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ کوئی بندہ اس وقت تک متّقی نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے۔ مگر ظلم پر چپ رہنا بذات خود ایک ظلم ہے۔
بقول پروین شاکر:
ظُلم سہنا بھی تو، ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
البتہ جب کسی شہر کے لوگوں کو ظلم سہنے کی عادت ہو جائے اور ہر ناانصافی پر خاموشی و بزدلی کی بیماری لگ جائے، تو تضحیک، مسائل، پریشانی، غربت اور زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
بقول شاعر:
ایک چپ ہے جو نگلتی جا رہی ہے شہر کو
اور اس پہ بولتا، تو بھی نہیں، میں بھی نہیں
تاہم کسی شاعر نے اس شعر کا یوں جواب دیا:
ہم چپ تھے کہ برباد نہ ہو جائے گلشن کا سکون
نادان یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم میں قوت للکار نہیں
اس شعر میں شاعر نے بڑی گہری بات کی ہے کہ
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے





