پارلیمان، عدلیہ، فوج اور افسر شاہی

پارلیمان، عدلیہ، فوج اور افسر شاہی
منصور احمد کٹاریہ ( ایڈووکیٹ ہائیکورٹ )
چلے تو پائوں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
پاکستان ایک دلچسپ ریاست ہے جہاں عوام حصولِ عدل کے لیے اپنا مقدمہ عدلیہ کے سامنے رکھتے ہیں اور عدلیہ حصولِ عدل کے لیے اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں، سیاستدان حصولِ اقتدار کے لیے مقتدرہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور مقتدرہ اپنی معصومیت کا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یعنی سب کی امیدوں کا محور اور ستم کا نشانہ عوام ہی ہیں مگر انداز اور طریقہ کار بہت عجیب ہیں۔ عوام ہر لحظہ اپنے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف کلمہ جمہوریت بلند کرتے ہوئے جان کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے. اس ضمن میں ایوب خان کے خلاف تحریک، ضیا کے دور میں بحالی جمہوریت کی تحریک، مشرف کے دور میں تحریک بیّن مثالیں ہیں۔ ایوب خان تو کہتے تھے جمہوریت ’’ ہمارے خطے کے مزاج کے مغائر ہے‘‘۔ مگر دَہائی در دَہائی جمہوریت کی خاطر قربانیاں دینے والوں نے اس مفروضے کو ایوب خان کے ساتھ ہی درگور کیا۔ عام فہم یہی ہے کہ پارلیمان کی منشا کے مطابق اور سر پرستی میں کاروبارِ ریاست چلانے کو جمہوریت کہتے ہیں۔ حقیقی طور پر پاکستان کے عوام، ادارے اور حکومتیں اس فکر سے کبھی متفق نہیں رہے۔ جہاں فوج اور پولیس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ برطانوی ورثے میں ملنے والے ادارے ہیں، وہیں عدلیہ کے حوالے سے چشم کشائی کرنا نہایت غیر مناسب ہے۔ گو کہ عدلیہ موجودہ شکل میں اپنی الگ شناخت قائم کر چکی ہے مگر عدالتی و قانونی نظام برطانوی راج کی درخشندہ نشانیاں ہیں۔ جو ادارہ جاتی ڈھانچے فرنگیوں نے بنائے تھے ان کو ایک خاص جمع نفی کے بعد ہم نے اپنا لیا اور پھر چند افراد نے اپنے مفادات کے لیے ان کا بھرپور استعمال کیا۔ وہ فوج ہو، عدلیہ ہو، پارلیمان ہو، افسر شاہی ہو یا پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے، سب کے سب اپنے ماخذ یعنی ’’ راج‘‘ کے مقروض ہیں ۔ اس لیے یہ تاثر دینا کہ محض فوج اور پولیس برطانوی ورثہ ہیں نہایت بھونڈی دلیل ہے۔ ان تمام اداروں میں واحد پارلیمان ہے جسے کم عمری میں ہی ہمیں گود لینا پڑا اس لیے اس کو چلانے کے انداز سیکھتے ہوئے تین نسلوں کو جان سے جانا پڑا۔
حالیہ ستائیسویں آئینی ترمیم نے پاکستان میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جہاں یہ ترمیم مکمل ضابطے کے تحت آئین کا حصہ بنی ہے وہیں جمہوریت پسندوں کا ایک گروہ اسے آئین کی روح سے متصادم قرار دے رہا ہے۔ ترمیم کو قومی اسمبلی میں متعارف کرانے اور سرسری مباحثے کے بعد جلد بازی میں آئین کا حصہ بنایا جانا در حقیقت جمہوریت کی روح سے متضاد ہے۔ باقی اس کے مندرجات کیا ہیں اور کیا نہیں وہ بعد کی بحث ہے۔ ذاتی رائے یہ ہے کہ پارلیمان تمام اداروں سے اعلیٰ اور برتر ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمان حق نمائندگی ادا کر رہا ہے یا نہیں؟، یہ سوال کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ساتھ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ تمام تر قانون سازی اور دستور سازی کا مجاز ادارہ پارلیمان ہی ہے اور باقی تمام اداروں کو عوامی نمائندوں کے بنائے گے قوانین کے مطابق ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ منصفین کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے حکومتوں پر تنقیدی کرنا غیر موزوں ہے۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ عدالت ریاست کا ادارہ ہے حکومت کا نہیں اور اس کا کام بنائے گئے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا ہے، نئی قانون سازی کرنا نہیں۔ تجویز اور تشریح کا اختیار حدود سے تجاوز کرے تو مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔
ترمیم کے مندرجات سے اختلاف رکھنا اور اپنی آراء کا اظہار کرنا بھی عین جمہوری رویہ ہے۔
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ پر سوالیہ نشان ہے اور ماضی کے فیصلوں کے تناظر میں اس بات سے انکار نہیں کہ عدلیہ نے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کر کے ملک میں فوجی ادوار کے نہ تھمنے والے سلسلے کو آئینی و قانونی جواز فراہم کیے ۔ کبھی ’’ نظریہ ضرورت‘‘ کو آئین پر مقدم سمجھا تو کبھی منتخب وزیراعظم کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کبھی آمروں کے بنائے گئے عبوری آئینی احکام کے تحت حلف لیا تو کبھی منتخب وزرا اعظم کو جنبش قلم سے اسمبلی سے باہر دے مارا۔ کبھی از خود نوٹس کا سہارا لے کر کارِ حکومت میں روڑے اٹکائے تو کبھی ستارہ افروز کندھوں کے ساتھ مل کر سیاستدانوں کے خلاف منشا مطابق کے فیصلے لکھے۔ کبھی کسی کو دیکھ کر فرطِ جذبات میں اظہار فرحت و مسرت کیا تو کبھی ذاتی ناپسند کی بنیاد پر فیصلے قلمبند کیے۔ مجھے تو جسٹس مولوی مشتاق کا بھٹو صاحب کے ساتھ بیان کردہ رویہ جو کہ تاریخ کا حصہ ہے، یاد آ جاتا ہے اور بے ساختہ یہ شعر ذہن میں آتا ہے۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
تاریخ معلم ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک راہ نما ہے۔ دو غلط کبھی ایک صحیح کو جنم نہیں دے سکتے۔ حالیہ ترامیم میں آئین کی اصل اور روح کے منافی عدالت عظمیٰ کی حیثیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ آئین میں محض الفاظ پر انحصار کیا جائے تو ترمیم میں کوئی مسئلہ نہیں، حالانکہ آئین کی غایت اور مقاصد اس امر کے متقاضی ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہر حال میں آئینی و قانونی اور واقعاتی نکات پر حتمی تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں آئینی عدالت کا قیام عدالت عظمیٰ کی حیثیت کو ختم کرتا ہے اور یوں آئین کی روح کے خلاف ہے۔
ساتھ ہی استثناء کے سوال پر یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جمہوریت کی روح شخصی آزادی اور ادارہ جاتی احتساب ہے۔ جب کچھ افراد یا ادارے استثنا سے مبرا ہوں گے تو جمہوریت اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور اقتدار چند افراد کی منشا اور خواہش کا نام بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر، مکرر، اگر پاکستان میں استثناء دینا مقصود ہو تو سوائے منتخب وزیراعظم کے اس معیار پر کوئی پورا نہیں اترتا،کیونکہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہر وزیراعظم کو بعد از اقتدار عدالتوں اور زندانوں کی زینت بننا پڑا ہے۔ سو خاص پاکستانی تناظر میں اگر کوئی کرسی استثنا کی حقدار تھی تو وہ وزیراعظم کی کرسی تھی. مگر فوج کے سربراہ اور سربراہ ریاست کو تا حیات استثنا میں آئین کی روح کے مغائر ہے۔
جہاں تک عدلیہ کے منصفین کے تقرر اور تبادلوں کا تعلق ہے تو بجا طور پر عوامی نمائندوں کو بھرپور حق ہے کہ وہ قانونی طریقہ کار وضع کریں جس میں شفافیت ہو اور پارلیمان اس معاملے میں مختار ہو۔ اس ضمن میں ہمیں پارلیمان کے معنی سمجھنا ہوں گے، پارلیمان بنیادی طور پر عوامی رائے کا اظہار ہے. اور جمہوری نظام تقاضا کرتا ہے کہ ہر معاملے میں عوامی رائے حتمی ہو۔
دراصل پاکستان میں عدلیہ، فوج اور افسر شاہی نے مل کر ماضی میں پارلیمان کے تقدس کو اس قدر پامال کیا ہے کہ آج لاشعوری طور پر ہمارے عوام اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ پارلیمان عوامی آواز ہے اور سب سے برتر ادارہ ہے۔ ساتھ ہی ان اداروں کی ایک ایسی تصویر نقش ہو چکی ہے کہ بارہا آئین شکنیوں کے باوجود یہ ادارے ہمارے لیے معتبر ہیں جبکہ سیاست اور سیاست دان گالی بن چکے ہیں۔ اس لیے ارتقائی عمل کا تقاضا ہے کہ پارلیمان کو اپنی ساکھ بحال کرنے کا موقع دیا جائے اور اگر کوئی موقف یا اقدام ہمیں پسند نہ آئے تو اپنے انتخاب کے ذریعے اسے بدل دیں۔ حالیہ ترمیم کے بہت سے مندرجات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پارلیمان کو ہر قسم کی قانون سازی کا حق ہے اور عدلیہ کے پاس ہر قانون سازی پر عدالتی نظر ثانی کا حق حاصل ہے۔ میں ذاتی حیثیت میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک کا سب مظلوم ادارہ پارلیمان ہے جس کی بے توقیری کی گئی اور جس کی کردار کشی کر کے آمدہ نسلوں کو سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا کہا گیا۔ کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ قائد اعظمؒ بہترین سیاست دان تھے، ذوالفقار علی بھٹو محب وطن سیاستدان تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو سیاسی جدوجہد کی عملی تصویر تھی، بلکہ لفظ سیاست کو دشنام جبکہ جسٹس، جرنیل اور سیکرٹری کو آرزو اور عنقا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سب محترم ہیں اور سب میں پارلیمان اور سیاستدان اول ہیں۔
حاصلِ بحث یہ ہے کہ تمام تر اختیارات اور حقوق ہونے کے باوجود آئینی ترامیم کو بحث و تمخیص کے ذریعے اور حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے اکثریتی اتفاق کے بعد ہی قومی اسمبلی سے پاس ہونا چاہیے تاکہ پارلیمان کا تقدس اور عوام کا اعتماد قائم رہے۔
جو منہ کو آ رہی تھی اب لپٹی ہے پائوں سے
بارش کے بعد خاک کی فطرت بدل گئی







