سعودی عرب میں حج انتظامات کا آغاز

سعودی عرب میں حج انتظامات کا آغاز
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
سعودی عرب میں ہونے والے حج سمپوزیم کے اختتام کے ساتھ ہی حج 2026ء کے انتظامات کا آغاز ہو گیا ہے۔ عازمین حج کے نجی گروپس لے جانے والوں کو منیٰ میں خیموں کے لئے جگہ کی الاٹمنٹ شروع کر دی گئی ہے۔ پاکستان سے بہت سے حج منظم سعودی عرب میں ہیں جو اپنے اپنے کوٹہ کے عازمین حج کے لئے کدانہ سے اراضی حاصل کر رہے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا گزشتہ حج کے دوران منیٰ میں نجی گروپس جو خیموں کے لئے اراضی حاصل کرتے تھے سرکاری اسکیم میں جانے والے عازمین حج کو دے دی گئی تھی جس پر حج گروپ آرگنائزروں نے خاصا شوروغوغا کیا تھا لیکن اس مرتبہ جمرات کے قرب میں واقع اراضی نجی گروپس کے عازمین حج کو دی جائے گی۔ منتظمین نے سعودی کمپنیوں سے معاہدے شروع کر دیئے ہیں جس میں منیٰ کے خیموں کے علاوہ مکہ مکرمہ کے ہوٹلز میں عازمین حج کے قیام کے لئے معاہدے شروع ہو چکے ہیں۔ جدہ میں ہونے والے حج سمپوزیم میں نجی گروپس لے جانے والوں نے سعودی حکام سے پاکستان کو نئی مردم شماری کے مطابق حج کوٹہ دینے کو کہا ہے حالانکہ یہ کام ہماری وزارت مذہبی امور کو کرنا چاہیے جو نجی گروپس لے جانے والوں کی تنظیم کر رہی ہے۔ پاکستان سے فریضہ حج کی سعادت کے لئے ایک لاکھ اسی ہزار عازمین حج جائیں گے جن میں ساٹھ ہزار کے قریب پرائیویٹ گروپس کی توسط سے جائیں گے۔ ہمیں یاد ہے1996 ء میں نگران وفاقی مذہبی امور سینیٹر ملک فرید اللہ خان کی دعوت پر سعودی وزیر حج ایاد مدنی پاکستان کے دورے پر آءے تھے جنہوں نے اسلام آباد میں اپنے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں دس ہزار عازمین حج کا اضافی کوٹہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ وزارت مذہبی امور کے حکام سعودی وزارت حج سے درخواست کریں تو کوئی وجہ نہیں وہ پاکستان کے حج کوٹہ میںاضافہ نہ کریں بدقسمتی سے ہمیں اس طرح کے وزراء میسر ہوتے ہیں جو سعودی حکام کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ عربی زبان سے نابلد ہوتے ہیں تو دوسری طرف انہیں انگریزی میں بات نہیں کرنی آتی جس کی وجہ سے وہ سعودی حکام سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ سعودی حکومت کا یہ معمول رہا ہے وہ حج ختم ہوتے ہی اگلے سال حج انتظامات پر توجہ دینا شروع کر دیتی ہے جب کہ پاکستان کی وزارت حج اختتام حج کے کئی ماہ تک خاموش رہتی ہے۔ اس ناچیز کو کئی مرتبہ حج انتظامات کے سلسلے میں سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ حق تعالیٰ کی بڑی مہربانی تھی مجھے مدینہ منورہ میں دو پاکستان ہائوسز کا نگران مقرر کرکے بھیجا گیا حالانکہ ہماری تقرری کے موقع پر بعض حلقوں کو خاصی تشویش ہوئی لیکن ہم نے اپنی محنت اور اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہوئے صرف ایک ماہ میں چھ ملین ریال رینٹ جمع کرنے کا ریکارڈ قائم کیا جس پر ہمیں دو ہزار ریال نقد انعام بھی ملا۔ ہمیں احمد بخش لہری اور فصیح الدین خان جیسے راست باز ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو سرکاری ٹرانسپورٹ کی بجائے پیدل چل کر حجاج کرام کی رہائش گاہوں میں جاتے تھے۔ ہمارے مشاہدات کے مطابق سعودی عرب میں حج مشن میں تعینات افسران اور ملازمین کی اکثریت ماسوائے سیروسیاحت کے سرکاری امور کی انجام دہی کم ہی کرتے ہیں۔ ایک روز ہم نے ڈائریکٹر حج احمد بخش لہڑی سے استفسار کیا آپ حج ڈیوٹی کے لئے وزارت مذہبی امور کے ملازمین کو کیوں نہیں بلاتے تو ان کا جواب تھا وزارت مذہبی امور کے ملازمین یہاں آکر کام نہیں کرتے جب کہ باہر کے محکموں کے ملازمین محنت سے کام کرتے ہیں۔ سیاسی ادوار میں حج میں تمام اعلی افسران کی تقرریاں سیاسی وابستگی کے پیش نظر کی جاتی ہیں لہذا خرابی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے اگر حج مشن میں میرٹ اور حجاج کے جذبہ خدمت سے سرشار لوگوں کو پوسٹ کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے حجاج کرام کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک ہم نے سعودی حج تعلمیات کا مطالعہ کیا ہے اس میں نہ سرکاری اور نہ ہی کسی اور حج اسکیم کا ذکر ہے لیکن پاکستان سے کئی برس تک عازمین حج کو ریگولر اور اسپانسر اسکیم میں بھیجا جاتا رہا ہے۔ سعودی حکومت تو بارہا اس بات پر زور دے چکی ہے تمام عازمین حج کو نجی گروپس میں بھیجا جائے جیسا کہ دیگر تمام ملک اپنے عازمین حج کو نجی گروپس میں بھیجتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو پاکستان حج مشن کے مالی معاملات کا آڈیٹر جنرل سے آڈٹ بھی کرنا چاہیے۔ ویسے تو وزارت مذہبی امور کا کوئی اکائونٹس آفیسر رسمی طور پر آڈٹ کرکے رپورٹ دے دیتا ہے یا پھر وزارت خارجہ سے فارن آڈٹ کی کوئی ٹیم آڈٹ کرکے آجاتی ہے۔ درحقیقت آڈیٹر جنرل کو عازمین حج کے لئے حاصل کی جانے والی عمارات اور حجاج کی تعداد اور مالکان بلڈنگ کو پیسوں کی ادائیگی کا آڈٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بہت سی عمارات میں حجاج کرام مقررہ تعداد سے کم رکھے جاتے ہیں لیکن بلڈنگ کے مالکان کو پوری ادائیگی کی جاتی رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے اگر وفاقی حکومت آڈٹ ٹیم بھیج کر عمارات کے لین دین کے مالی معاملات کی جانچ پڑتال کرے تو کئی پردہ نشینوں کے نام سامنے آسکتے ہیں۔ سعودی حکومت آئندہ سال حج انتظامات تیزی سے کر رہی ہے جس کی واضح مثال نجی گروپس کو حجاج کے لئے منی میں جگہ کی الاٹمنٹ اور ان کے کوٹہ کے عازمین حج سے وصول کی جانے والے واجبات کی 65فیصد رقم فوری طور پر سعودی عرب بھیجنے کی ہدایت کی ہے جو اس امر کا غماز ہے حج انتظامات کا آغاز ہو چکا ہے۔ گزشتہ ایک عشرہ کے دوران سعودی عرب میں حج انتظامات میں خاصی تبدیلیاں ہوئی ہیں جس میں معلمین کے نظام کو قلعی طورپر ختم کر دیا گیا ہے جو کام معلمین کی ذمہ داری تھی وہ سعودی کمپنیوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ ماضی میں موسسہ جنوبی ایشیائی معلمین کو منی میں خیموں کے لئے اراضی الاٹ کرتا تھا لیکن یہ کام اب سعودی کمپنی کدانہ کی ذمہ داری ہے۔





