Columnمحمد مبشر انوار

کٹھن راستہ

کٹھن راستہ
محمد مبشر انوار
سرزمین بے آئین کیسے کیسے قانون و آئین پسندوں کو ہڑپ کر جاتی ہے، اس کا مظاہرہ گزشتہ چند دنوں میں بخوبی ہو چکا ہے کہ اعلیٰ ترین عدلیہ کے معزز ترین جج صاحبان رہے سہے آئین کی بے حرمتی پر مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کے نزدیک لمحہ موجود کا آئین، وہ آئین ہی نہیں کہ جس کے تحفظ کا حلف انہوں نے اٹھایا تھا لہذا ایسی عدالت میں ان کا ٹھہرنا بے مقصد ہو چکا ہے اس لئے وہ اپنے منصب سے الگ ہو رہے ہیں۔ مستعفی ججز کا مقننہ کے حوالے سے یہ واضح موقف رہا ہے کہ یہ مقننہ کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ کیا قانون سازی کرتی ہے، تب بہت سے ناقدین یہ سوال اٹھاتے رہے کہ مقننہ بہرطور، آئین کے بنیادی ڈھانچے یا ماورائے آئین قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی اور ایسے کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کی طاقت بہرطور یہی آئین، آئین کے محافظوں کو فراہم کرتا ہے تا کہ طاقت کا توازن برقرار رہے، بدقسمتی سے تب آئین کے محافظ مقننہ کی بدنیتی کو جانچ نہ سکے اور آج اس بدنیتی کے باعث جب اعلیٰ ترین عدلیہ، انتظامیہ کا ماتحت عضو بن چکی، جب اس کے اختیارات سلب کئے جا چکے، تو ان جج صاحبان نے انتہائی قدم اٹھا لیا لیکن افسوس اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔ کیا جج صاحبان کا اٹھایا گیا یہ انتہائی قدم، کسی بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟ کیا یہ جج صاحبان مقننہ کی اس حرکت/قانون سازی کو واپس کر سکتے ہیں؟ کیا آئین کی اصل شکل کو بحال کرنے میں ان کا یہ قدم سود مند ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات اس وقت زبان زد عام ہیں اور ہر شخص اس پر متفکر ہے کہ ان جج صاحبان نے مدت ملازمت میں جس طرح اپنے فرض منصبی سے انصاف کیا، جو نیک نامی کمائی، کیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی سوک سوسائٹی یا پاکستانی معاشرہ ان کو حق بجانب سمجھتا ہے؟ ان جج صاحبان کے کریڈٹ پر کئی ایک ایسے فیصلے موجود ہیں جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن انہی فیصلوں پر موجودہ حکومت اور ان کے سپورٹرز ’’ انصاف کی جیت‘‘ سمجھتے رہے ہیں ، انہیں آئین کے محافظ گردانتے رہے ہیں حالانکہ ان فیصلوں میں انصاف سے کہیں زیادہ سیاست کی جھلک نظر آتی ہے لیکن آج ان ججز کے طرز عمل کو صرف اس لئے سیاسی قرار دیا جا رہا ہے کہ یہ موجودہ حکومت کے سیاسی طرز عمل سے میل نہیں کھاتے جبکہ آج کی اپوزیشن ان کو صد فیصد حق بجانب سمجھ رہی ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ ماضی کے کئی ایک ججز کی سیاسی وابستگی اظہر من الشمس رہی ہے مگر ان کے لئے ایسی مخالفت یا تنقید دیکھنے میں نظر نہیں آئی بلکہ ان کو انصاف پسند کہا گیا ہے بالخصوص 1993ء میں تحلیل کی گئی اسمبلی کے حوالے سے مرحوم چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا رٹ دائر کئے جانے سے پہلے ہی یہ بیان کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ماضی کی نسبت مختلف ہو گا، جو بعد ازاں انتہائی مختصر سماعت کے بعد ، اسمبلی کی بحالی پر منتج ہوا۔ الگ بات کہ اسمبلی پھر بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی جبکہ موجودہ صورتحال میں، کئی ایک جید صحافیوں کی جانب سے، یہ کہنا کہ مذکورہ جج صاحبان کی وابستگی سیاسی ہو چکی تھی، انتہائی عجیب منطق لگتی ہے کہ کل تک آئین کی تشریح کرتے ہوئے ایک مخصوص سیاسی جماعت کی داد رسی/شنوائی قانون کی بالادستی قرار پائی جبکہ آج انصاف کی فراہمی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات، سیاسی وابستگی قرار دینا، صریحاً دہرا معیار ہی کہلایا جا سکتا ہے۔
میری دانست میں، مستعفی جج صاحبان کا اقدام دیر آید درست آید کے مصداق ہی ہے کہ جب تک وہ عدالت عظمیٰ میں بیٹھ کر، اصلاح احوال کی کوشش کر سکتے تھے، انہوں نے کی لیکن جب معاملات سر سے اوپر اٹھ گئے، تو انہوں نے ایسی عدلیہ سے کنارہ کشی بہتر سمجھی، البتہ میری رائے سے اختلاف ہر کس و ناکس کا حق ہے۔ بہرکیف بہتر تو یہی تھا کہ گربہ کشتن روز اول کے مصداق، جب آئین کی کتربود جاری تھی، اسی وقت اس کا سدباب کیا جاتا اور پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف بروئے کار آیا جاتا مگر نجانے کس پس منظر یا کس امید کے تحت یہ سب ہونے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج عدلیہ بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔ رہی بات آئینی عدالت کی، تو حیرت ہوتی ہے کہ عدالت کی اس قدر تقسیم کیونکر ضروری سمجھے گئی کہ ملک کی سب سے اعلیٰ ترین عدالت کے جج صاحبان، آئین کی عرق ریزی و سیاحی کے باوجود اس قابل نہیں سمجھ گئے کہ ان پر آئینی سمجھ بوجھ کے حوالے سے اعتماد کیا جاتا، اس سے زیادہ تضحیک ججز کی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ دوسرے الفاظ میں، اس کا مقصد یہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے کہ مقننہ کی اہلیت کس قدر ہے کہ جو قانون سازی مقننہ آئین کے حوالے سے کر رہی ہے، وہ اس قدر مبہم، سقم سے بھرپور ہے کہ ایک مکمل علیحدہ آئینی عدالت ہمہ وقت آئینی معاملات کی تشریح پر مامور کی جانی ازحد ضروری ہے یا جو قانون سازی کی گئی ہے، اس کا پس منظر ذہین نشین رکھنے والے مخصوص جج ہی اس کی تشریح، مقننہ کی خواہشات کے مطابق کر سکتے ہیں یا آئین کی حالت عمومی نہیں بلکہ انتہائی خصوصی ہے کہ اس کی تشریح، حکمرانوں کی خواہش، منشا و وقت کے مطابق، ہمہ وقت بدلتی رہے گی؟ ایسی صورت میں نجانے کب تک یہ شیطانی چرغہ چلتا رہے گا اور اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا ماسوائے اس کے کہ پوری قوم بمعہ اشرافیہ خود کو آئین و قانون کے تابع کرے بجائے ان میں ترامیم کی جائیں، حکومت کو آئین و قانون تبدیل کرنے کی بجائے خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تحریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ ’’ کچھ احباب کا خیال ہے کہ ان ججز کو کفارہ ادا کرنے کے متعلق سوچنا چاہئے اور کسی بھی طرح اس خسارے کے ازالے کے لئے میدان میں نکلنا چاہئے، ان کی دانست میں ان ججز نے جو نیک نامی کمائی ہے، اب اس نیک نامی کو کیش کروانے کا وقت ہے، انہیں عوام میں نکل کر آئین پر مارے گئے شب خون کے خلاف عوام کی قیادت کرنی چاہئے۔ بظاہر یہ ناممکن امر بھی نہیں لگتا کہ کئی ایک سابق جج صاحبان عوامی سیاست میں مشغول ہیں اور بہرطو ر اپنی حتی المقدور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سوئے ہوئے عوام کو جگایا جائے، لیکن عوام ایسے بے سدھ سوئے ہیں کہ اسے ان معاملات سے بظاہر کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا بالخصوص پنجاب میں اگر عوام جاگنا بھی چاہیں تو مسلط کردہ حکومت چادر و چار دیواری کا تقدس یوں پامال کرتی ہے کہ عوام کو مجبورا سونا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں مستعفی جج صاحبان کو یہ مشورہ دینا کہ وہ عوامی قیادت کے لئے خود کو پیش کریں اور عمران خان کے حقیقی آزادی کے علم کو اٹھا کراس تحریک میں نئی روح پھونکیں، موجودہ حالات میں ناقابل عمل مشورہ ہی دکھائی دیتا ہے بصورت دیگر ان ناقدین کا خیال ہے کہ ان ججز کو مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر ہی مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔ حالانکہ میری رائے یہ ہے کہ ان جج صاحبان نے نظام کے اندر رہتے ہوئے، اپنے ہی دائرہ کار میں رہتے ہوئے، آخر وقت تک اپنی کوششیں کی، حتی کہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر ان کا موقف واضح رہا اور وہ اسی کوشش میں رہے کہ کسی طرح نظام کے اندر رہتے ہوئے، آئینی کتربود کے خلاف بروئے کار آئیں لیکن جب تمام تر امیدیں اور قانونی راستے ختم ہو گئے، تو اس ادارے سے الگ ہو جانے کا حتمی فیصلہ کیا۔ ان ججز کو دئیے جانے والے مشوروں اور اکسانے والی تحریروں و تجزیوں پر بہرطور فیصلہ ان ججز کا ہو گا کہ آیا وہ دیگر مستعفی ججز کی طرح گوشہ گمنامی میں جاتے ہیں، دنیا بھر کے مختلف اداروں میں لیکچررز دیتے ہیں یا عوامی حقوق میں سڑکوں پر نکلتے ہیں، آخری انتخاب مستعفی جج صاحبان کا ہو گا‘‘۔
ذرائع کے مطابق خبریں یہی ہیں کہ جہاں ایک طرف سابق سینئر ترین جج جناب منصور علی شاہ صاحب نے کراچی بار کی جانب سے خطاب کی دعوت قبول کر لی ہے تو وہیں ان کو باقاعدہ تنبیہات کا سلسلہ بلکہ ڈرانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ ڈرانے کے حوالے سے برادرم سہیل وڑائچ نے اپنی تحریر میں صرف ان خدشات کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ بطور جج ان کے کچھ معاملات کا حوالہ دے کر ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب کی ایسی خامیوں پر روشنی ڈالی ہے جو بہرطور انتظامیہ ان کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے مکمل انصاف کی فراہمی کے حوالے سے، مقتدرہ و اشرافیہ کو یہ فکر لاحق ہو چکی تھی کہ مبادا کہیں وہ 2024ء کے انتخابی عمل کو ہی کالعدم قرار نہ دے دیں لہذا ان کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کی خاطر چھبیسویں آئینی ترمیم اور اب ستائیسویں آئینی ترمیم کرکے، انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تا کہ کسی بھی قسم کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے۔ رہی بات وکلاء برادری یا عوامی رائے کی، تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مستعفی ججز کا ایک طرف وکلاء پر اثر و رسوخ ہے، اعتماد و عزت برقرار ہے تو دوسری طرف عوام میں بھی ان کی پذیرائی ہے اور ان کو قابل جج کے علاوہ مظلوم بھی سمجھتے ہیں، اس پس منظر میں جسٹس منصور علی شاہ عوام کی قیادت کر پائیں گے یا عوامی اعتماد حاصل کر پائیں گے؟ بالفرض جسٹس منصور علی شاہ، آئین بحالی کے معاملے پر عوام کو متحرک کر لیتے ہیں تو کیا مقتدرہ و اشرافیہ اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گی؟ بالخصوص جب پنجاب پر مریم نواز اقتدار کی مسند پر براجمان ہیں اور جسٹس منصور لاہور ہائیکورٹ میں ان کے خلاف ایک مقدمہ کی سماعت کر چکے ہیں گو کہ اس میں بھی فیصلہ کرنے سے قبل حکومت کو موقع فراہم کر کے، مریم نواز کا سیاسی کیرئیر دائو پر لگنے سے بچ گیا تھا اور لاٹھی توڑے بغیر سانپ مر گیا تھا، جسٹس منصور کو ایسا کوئی موقع مل سکے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ انتہائی ذہین، سمجھدار اور سلجھے ہوئے شخص ہیں، وہ ان معاملات پر بغیر کوئی ہوم ورک کئے، کسی بھی صورت میدان میں نہیں اتریں گے کہ ایسی تحاریک کو چلانے کے لئے کثیر اسمائے کی ضرورت کے علاوہ بہرطور کسی ’’ خصوصی ضمانت‘‘ کی ضرورت رہتی ہے، ان کے بغیر عوامی تحریک چلنے یا کامیاب ہونے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، جس کا مشاہدہ ہم ماضی میں بارہا کر چکے ہیں۔ بہرکیف حقیقت یہی ہے کہ تادم تحریر جسٹس منصور علی شاہ ملک و قوم کی خاطر ایک انتہائی ’’ کٹھن راستے‘‘ کا انتخاب کر چکے ہیں، جس میں کامیابی ملک و قوم کی ترقی و بقا ممکن ہے، اللہ کریم وطن عزیز کے خیر خواہوں اور قانون کی بالادستی قائم کرنے والوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور انہیں کامیاب کرے، آمین۔

جواب دیں

Back to top button