سیاست دانوں کی سیاسی موت

سیاست دانوں کی سیاسی موت
تجمّل حسین ہاشمی
چارلس ڈیگال کا کہنا تھا ’’ الفاظ سیاست دانوں کی موت ہوتے ہیں اور جو لوگ سیاست میں آ کر زیادہ بولتے ہیں وہ اپنی ہی الفاظوں سے اپنی سیاسی قبر کھودتے ہیں ‘‘۔ دنیا بھر میں ہزاروں سیاست دانوں اور سیاست کے طالب علموں نے چارلس ڈیگال کے نظریات اور اس کے خیالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ فرانس نے سو سال کی دس بہترین شخصیات کی فہرست میں چارلس ڈیگال کو دوسرا نمبر دیا۔ ڈیگال ایک فوجی تھا ، دوسری جنگ عظیم لڑنے کے بعد وہ سیاست میں آیا تو اس نے فرانس کو دنیا کی چوتھی بڑی طاقت بنا دیا ۔ لندن سے بیٹھ کر ’’ فری فرانس‘‘ کی تحریک چلائی تاکہ فرانس کو نازی قبضے سے آزاد کرایا جا سکے۔ 1958ء میں فرانس سیاسی بحران کا شکار تھا ، وہ واپس آیا اور اس نے فرانس کا نیا آئین بنایا جس سے پانچویں ریپبلک وجود میں آئی۔ ڈیگال 1959ء سے 1969ء تک فرانس کا صدر رہا ۔ اس نے فرانس کو ایک مضبوط عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن بھی ڈیگال سے متاثر تھا۔ نکسن جب صدر کا الیکشن لڑ رہا تھا تو اس نے چارلس ڈیگال سے سیاست میں کامیابی کا فارمولا مانگا ، ڈیگال نے کامیابی کے دس فارمولے کا کہا تو نکسن نے کہا کہ مجھے ان میں سے ایک بتا دیں۔ چارلس ڈیگال نے چند لمحے سوچا اور تھوڑا زور دے کر بولا ’’ خاموشی ‘‘ نکسن نے کہا مجھے سمجھ نہیں آیا ۔ ڈیگال نے زور دے کر بولا خاموشی سیاست دانوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اظہار کے دو اصول ہوتے ہیں’’ ہاں یا ناں ‘‘ لیکن تیسرا اصول خاموشی ہے ۔ ڈیگال کا کہنا تھا کہ ’’ ایک کامیاب یا بڑے سیاست دان کو خاموشی کا فن آنا چاہیے۔ الفاظ سیاست دانوں کی موت ہوتے ہیں اور جو لوگ سیاست میں آ کر زیادہ بولتے ہیں وہ اپنی ہی سیاسی قبر کھود دیتے ہیں ‘‘۔
پاکستانی سیاست دانوں کو بھی بولنے کی عادت پڑھ چکی ہے، ہمارے ہاں ایسا تاثر بن چکا ہے کہ جو زیادہ بولے گا اس کو سیاست میں زیادہ عزت افزائی ملے گی ، میڈیا ٹاک شو میں زیادہ وقت ملے گا ۔ لوگوں کی واہ واہ اس کو اچھی لگتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی یہ تاثر عام ہے، وزیر اطلاعات جیسی پوسٹ کے لیے ایسے سیاسی بندے کو منتخب کیا جاتا ہے جو باتوں کا بادشاہ ہو بھلے علم سے نابلد ہو، بھلے صورت اخلاص نہ آتی ہو۔ ہمارے ہاں سیاسی لیڈروں کی بھی ایسی ہی حالت ہے، ان کے اپنے الفاظ ان کی ملک بدری کا باعث بنے ان کو جیلوں کی سختیاں برداشت کرنی پڑیں، خاموشی کو سیاسی موت سمجھتے ہیں، ویسے اسلام کے مطابق کبھی اور کسی بھی وقت قبولیت کا وقت ہو سکتا ہے، اس لیے اچھے الفاظ کا استعمال ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں جواب دینا فطرت بن چکا ہے۔ سیاسی حلقوں میں چھوٹی سے چھوٹی بات پر پریس کانفرنس کھڑکا دی جاتی ہے، میڈیا نی بھی اپنی ریٹنگ کے چکر میں سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ سیاست دانوں کو صحافیوں کو اپنے اردگرد دیکھنا اچھا لگتا ہے، ماضی کی کمزوریوں کو کھولنے کی روٹین بن چکی ہے۔ ماضی کی گندی پوتڑیاں ابھی تک ساتھ لے کر سوتے ہیں۔ جھوٹی، سچی کہانیاں بتا کر خود کو عیاں کرنا قابل فخر سمجھتے ہیں، ہمارے ہاں لوگوں کو بھی اس کی عادت پڑ گئی ہے، میں ماضی میں جانا نہیں چاہتا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی موت سے آج تک کسی بھی لیڈر نے عوامی جذبات کو ٹھنڈا نہیں کیا، کسی لیڈر نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ ایسے ایسے بیانات، بیانے بنائے، جس سے لوگوں تفریق و تقسیم پیدا ہوئی، صوبوں میں نفرت نے جنم لیا۔
2013ء کے دھرنے کے بعد سے تمام حدیں پار ہو چکی ہیں۔ مجھے عمران خان کے طرز حکمرانی سے بڑا اختلاف یہی رہا کہ آپ ایک ایسے لیڈر ہیں جن کو لوگ سنتے ہیں لیکن آپ کی طرز سیاست سے لوگوں میں زور زبردستی اور غیر مہذب ، غیر آئینی رویوں میں اضافہ ہوا ہے، عمران خان تھوڑی دیر خاموشی اختیار کر لیتا تو شاید حالات بہت مختلف ہوتے، آج دونوں جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ملکی بگاڑ کی تمام ذمہ داری خان حکومت پر ڈال رہی ہیں، حقیقت میں ہمارے لیڈروں کو خاموش رہنے کی عادت نہیں ہے، کوئی نہ کوئی ایسا بیان دیتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ان کو جلا وطنی جیسے مسائل درپیش آتے ہیں، ان کو بادشاہت کی سوچ سے نکل کر عوامی سوچ پر آنا پڑے گا۔ لیڈروں کے الفاظ ان کی موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں، ہم ترقی پذیر ہیں جہاں کمزور معاشی صورتحال اور دہشتگردی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے، ایسے حالات میں ہماری سیاسی لیڈرشپ کو محتاط الفاظ اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ 27 ویں ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ملکی معیشت کے لیے مزید مشکلات کا باعث ہو گی، ملک میں سیاسی افراتفری میں اضافہ ہو گا، بیانات ، پریس کانفرنس کی بھرمار ہو گی، میں سمجھتا ہوں کہ جتنی بھی غربت ہو جائے، جب تک کہ نظام عدل ٹھیک نہیں ہو گا کوئی بھی معاشی، سیاسی پلان کامیاب نہیں ہو گا، دنیا بھر کی ترقی کا راز وہاں کا نظام عدل اور سیاسی جماعتوں کی بصیرت پر قائم ہے، جب تک انصاف نہیں ہو گا تمام پلان بے کار بے سود ہوں گے۔





